غزل برائے اصلاح

انیس جان

محفلین
نہ لوں گا نام تیرا، ایک بھی گر موئے تن بگڑا
((خدایا نام نے لوں تیرا گر اک موئے تن بگڑا))
جو تجھ پر جان دیتے ہیں اگر ان کا کفن بگڑا

ہوا بگڑی فضا بگڑی شجر بگڑے چمن بگڑا
چمن کیا بگڑا ہائے بلبلوں کا تو چلن بگڑا

اے ساقی جلد لا تشریف ساغر جام بکھرے ہیں
نہیں ہے بات اک دو کی، ہے سارا انجمن بگڑا

ذرا دیکھو تو حال اس ماہ رخ کا قبر کے اندر
جبیں بگڑی ذقن بگڑا، غرض پورا بدن بگڑا

مسلماں کہتے ہیں کافر مجھے، مسجد سے روکے ہیں
مسلماں جان کر مجھ سے ہے ہائے(کافر بجائے ہائے) برہمن بگڑا

نہیں لگتا انیس اب جی کہیں پر بھی مرا ہرگز
مسلماں بگڑے کافر بگڑے تو بگڑا ہے من(میں)بگڑا

الف عین
یاسر شاہ
محمد تابش صدیقی
محمد ریحان قریشی
محمد خلیل الرحمٰن
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ردیف قطعی پسند نہیں آئی اور اکثر نبھائی بھی نہیں گئی
کفن چمن انجمن من نہیں بگڑا کرتے اور انجمن تو مونث ہے، اس کے ساتھ "بگڑی" ہونا تھا
عزیزی دائم اس کی تنقید پر ہاتھ صاف کریں
 

دائم

محفلین
محترم المقام سر!!
اب آپ طنز تو نہیں فرما رہے، قَسَم با خدا اُس تنقید میں قطعاً استاذی ظاہر نہیں کی میں نے :silent3::silent3:
 

دائم

محفلین
مجھے تو استاد صاحب سنجیدہ نظر ائے ان الفاظ میں ۔
آپ کو شاید وقت کے ساتھ اندازہ ہو جائے۔
مجھے ابھی اندازہ نہیں سر کا ....
ہاں کافی عرصہ امان زرگر صاحب کی غزلوں پر سر کی اصلاح پڑھا کرتا تھا، کوئی 40 کے قریب ان کی غزلوں پر سر کی اصطلاحیں پڑھ کر مجھے اندازہ ہو ہی گیا تھا، لیکن مزاج گرامی سمجھتے سمجھتے سمجھ جاؤں گا
 

انیس جان

محفلین
استادِ محترم گستاخی معاف میں نے اسی قافیہ ردیف وزن بحر میں آتش کی ایک غزل پڑھی تھی جس کا ایک شعر ابھی تک یاد ہے

امانت کی طرح رکھا زمیں نے روزِ محشر تک
نہ اک مو کم ہوا اپنا نہ اک تارِ کفن بگڑا

اُس غزل میں مذکورہ سارے قافیہ استعمال ہوئے تھے
 

انیس جان

محفلین
نہ لوں میں اسم تیرا اک بھی گر تارِ کفن بگڑا
الف عین
استاد صاحب جو مصرع غلط ہے ان کی نشاندہی کیجیے گا انشاءاللہ تصحیح کردوں گا غزل کو چھوڑتے ہوے میری جان نکلتی ہے
 

دائم

محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم

سخن، وَطَن، ختن، زمن، بدن.... الخ
یہ سب قوافی اساتذہ کے ہاں مستعمل ہیں اور بہ کثرت برتے گئے ہیں، اس دوسری بات یہ کہ یہاں مذکورہ بالا غزل میں تعقیدِ لفظی کا شائبہ تک نہیں پیدا ہو رہا... اس لیے میرے نزدیک یہ قوافی درست ہیں

..

اب آتے ہیں غزل کی طرف!

مطلع : بالکل واضح ہے، صرف پہلے مصرعے کے شروع میں نہ لوں گا نام تیرا کی توجیہ نہیں سمجھ پایا، یہاں کچھ اور ہونا چاہیے، اور پُر لُطف بات یہ ہے کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں سے مطلع اُٹھتا ہوا دکھائی دینا چاہیے، یہی جگہ ہے جہاں آپ کا ما فی الضمیر زور مانگتا ہے

شعر دُوُم :
بگڑا،بگڑی کی تکرار معیوب لگ رہی ہے، مناسب ہے کہ پہلا مصرعہ یوں کر دیں :
ہواؤں میں تغیر ہے، شَجَر بدلے، چَمن بگڑا

دوسرا مصرعہ بھی معمولی سی تبدیلی چاہتا ہے، یوں کر لیجئے :
بگڑنے سے چَمَن کے بلبلوں کا تو چَلَن بگڑا
 

دائم

محفلین
شعر سِوُم : بندش کی سُستی ہے، لیکن ذرا سی تبدیلی سے شعر شاہکار ہو سکتا، میں اسے ذرا سی نئی شکل دیتا ہوں، دیکھئیے کہ پسند آئے تو قبول کر لیجئے :
اے ساقی! جد آ، بکھرے پڑے ہیں جام و ساغر یاں
تری امید پہ ہر ایک اہلِ انجمن بگڑا
 

دائم

محفلین
مطلع کے مصرعِ اوّل کے لیے دو شعر لکھے ہوئے تدوین کرکے غزل میں بھی لکھ دیا تھا

خدایا نام نے لوں تیرا گر اک موئے تن بگڑا
دائم
یاد رہے کہ جو بھی تبدیلی کرنی ہو، وہ کمنٹ میں کریں،تدوین کرنے سے پہلے جو ذیل میں کہا گیا ہوگا، وہ تو رائیگاں چلا جائے گا نا
 

دائم

محفلین
شعر چہارم : وہی بگڑا، بگڑی کا تکرار ہو گیا، پہلا مصرعہ قدرے بہتر ہے، جبکہ دوسرا تبدیلی کا متقاضی ہے یوں کیجئیے :
ادائیں ختم، بدلا رُوپ، یعنی سارا تَن بگڑا
 

دائم

محفلین
شعر پنجم : لفظِ بَرْہَمَن نہیں ہوتا بلکہ بَرَہْمَن ہوتا ہے، اس لحاظ سے یہ قافیہ درست نہیں ہے، شعر کا پہلا مصرعہ بہت خُوب ہے، دوسرا مصرعہ معمولی سی ترمیم چاہتا ہے یوں کر لیجیے :
مسلماں جان کر مجھ کو مَگَر دیرِ کُہَن بگڑا
 

دائم

محفلین
مقطع : یار اللہ کے بندے، لفظوں کی بے جا تکرار شعر کو گہنا دیتی ہے، اور لفظ بھی وہ جو زبان پر ثقالت کا باعث بنتا ہے، پہلا مصرعہ اچھا ہے، دوسرا ہلکی سی ترمیم چاہتا ہے، یوں کر لیجیے :
وجودِ مشتِ خاکی سے مِرا اپنا وَطَن بگڑا
 

دائم

محفلین
آپ کی اس غزل پر میری گزارشات میری ذاتی رائے تھی، اس میں اساتذہ قبولیت یا عدمِ قبولیت کا جواز رکھتے ہیں
 
Top