غزل برائے اصلاح

انیس جان

محفلین
قصّہِ غم مت سنایا کیجیے
ہمدموں کو نے رلایا کیجیے

ڈاکٹر نے یہ کہا، محبوب سے
اس کو سینے سے لگایا کیجیے

برا لگتا ہے رقیبوں کو،، کہا
آپ محفل میں نہ آیا کیجیے

ہوگیا برہم مری اس بات پر
"غیر سے پہلو بچایا کیجیے"

تم نے میرے سے اگر ملنا نہیں
سوچ میں بھی پھر نہ آیا کیجیے

گردشِ ایّام کے مارے ہوئے
عاشقوں کو مت ستایا کیجیے

آؤ نا تم کسی شب تو ملنے بھی
روز حیلے مت بنایا کیجیے

دیکھ کر ان کی جوانی کو انیس
یاخدایا اے خدایا کیجیے
الف عین
محمد خلیل الرحمٰن
محمد ریحان قریشی
دائم
 
قصّہِ غم مت سنایا کیجیے
ہمدموں کو نے رلایا کیجیے

ڈاکٹر نے یہ کہا، محبوب سے
اس کو سینے سے لگایا کیجیے

برا لگتا ہے رقیبوں کو،، کہا
آپ محفل میں نہ آیا کیجیے

ہوگیا برہم مری اس بات پر
"غیر سے پہلو بچایا کیجیے"

تم نے میرے سے اگر ملنا نہیں
سوچ میں بھی پھر نہ آیا کیجیے

گردشِ ایّام کے مارے ہوئے
عاشقوں کو مت ستایا کیجیے

آؤ نا تم کسی شب تو ملنے بھی
روز حیلے مت بنایا کیجیے

دیکھ کر ان کی جوانی کو انیس
یاخدایا اے خدایا کیجیے
الف عین
محمد خلیل الرحمٰن
محمد ریحان قریشی
دائم
بحر ميں کمی بيشی ہيں خيال اچھا ہے ،شاھد کچھ الفاظ لکھنے ميں بھول گٸے ہيں
 

الف عین

لائبریرین
فاعلاتن فعلاتن فعلن یا فاعلاتن فاعلاتن فعلن یا فاعلاتن مفاعلن فعلن . یہ تین بحریں ہیں جن میں مبتدیوں کو کنفیوژن ممکن ہے ۔ یہاں بھی دو بحور کا خلط ملط ہو گیا ہے اس لیے شاید آزاد میاں کو 7،9، 10 ارکان کا خیال آیا لیکن اس بحر میں ایک ہی افاعیل دہرایا نہیں گیا ہے
زیادہ تر افاعیل فاعلاتن فاعلاتن فاعلن ہیں ۔
قصّہِ غم مت سنایا کیجیے
ہمدموں کو نے رلایا کیجیے
.... نے بمعنی نہ امریہ استعمال نہیں ہوتا مگر دونوں مصرعوں میں ایک ہی جگہ مت بھی اچھا نہیں لگتا۔ مت غریبوں کو..... ممکن ہے

ڈاکٹر نے یہ کہا، محبوب سے
اس کو سینے سے لگایا کیجیے
...' اس' کون؟
مراد تو عاشق ہونا چاہیے لیکن بیانیہ سے واضح نہیں ہوتا ۔ اگر Indirect speech مانی جائے تو ڈاکٹر کی بھی یہ خواہش ہو سکتی ہے

برا لگتا ہے رقیبوں کو،، کہا
آپ محفل میں نہ آیا کیجیے
... پہلا مصرع فعلاتن سے شروع ہو گیا اور بحر بدل گئی۔ الفاظ بدل کر دیکھیں

ہوگیا برہم مری اس بات پر
"غیر سے پہلو بچایا کیجیے"
... درست

تم نے میرے سے اگر ملنا نہیں
سوچ میں بھی پھر نہ آیا کیجیے
... میرے سے؟ یہ کون سی زبان ہے؟ شتر گربہ بھی ہے۔ پہلے مصرع میں تم اور دوسرے میں آپ!
آپ کو مجھ سے اگر ملنا نہیں
کیا جا سکتا ہے

گردشِ ایّام کے مارے ہوئے
عاشقوں کو مت ستایا کیجیے
... درست

آؤ نا تم کسی شب تو ملنے بھی
روز حیلے مت بنایا کیجیے
... پہلا مصرع بحر سے خارج ہو گیا! اور وہی شتر گربہ!
الفاظ بدلو

دیکھ کر ان کی جوانی کو انیس
یاخدایا اے خدایا کیجیے
.. خدایا کا مطلب ہی اے خدا ہوتا ہے مصرع بدل دو.۔
 
فاعلاتن فعلاتن فعلن یا فاعلاتن فاعلاتن فعلن یا فاعلاتن مفاعلن فعلن . یہ تین بحریں ہیں جن میں مبتدیوں کو کنفیوژن ممکن ہے ۔ یہاں بھی دو بحور کا خلط ملط ہو گیا ہے اس لیے شاید آزاد میاں کو 7،9، 10 ارکان کا خیال آیا لیکن اس بحر میں ایک ہی افاعیل دہرایا نہیں گیا ہے
زیادہ تر افاعیل فاعلاتن فاعلاتن فاعلن ہیں ۔
قصّہِ غم مت سنایا کیجیے
ہمدموں کو نے رلایا کیجیے
.... نے بمعنی نہ امریہ استعمال نہیں ہوتا مگر دونوں مصرعوں میں ایک ہی جگہ مت بھی اچھا نہیں لگتا۔ مت غریبوں کو..... ممکن ہے

ڈاکٹر نے یہ کہا، محبوب سے
اس کو سینے سے لگایا کیجیے
...' اس' کون؟
مراد تو عاشق ہونا چاہیے لیکن بیانیہ سے واضح نہیں ہوتا ۔ اگر Indirect speech مانی جائے تو ڈاکٹر کی بھی یہ خواہش ہو سکتی ہے

برا لگتا ہے رقیبوں کو،، کہا
آپ محفل میں نہ آیا کیجیے
... پہلا مصرع فعلاتن سے شروع ہو گیا اور بحر بدل گئی۔ الفاظ بدل کر دیکھیں

ہوگیا برہم مری اس بات پر
"غیر سے پہلو بچایا کیجیے"
... درست

تم نے میرے سے اگر ملنا نہیں
سوچ میں بھی پھر نہ آیا کیجیے
... میرے سے؟ یہ کون سی زبان ہے؟ شتر گربہ بھی ہے۔ پہلے مصرع میں تم اور دوسرے میں آپ!
آپ کو مجھ سے اگر ملنا نہیں
کیا جا سکتا ہے

گردشِ ایّام کے مارے ہوئے
عاشقوں کو مت ستایا کیجیے
... درست

آؤ نا تم کسی شب تو ملنے بھی
روز حیلے مت بنایا کیجیے
... پہلا مصرع بحر سے خارج ہو گیا! اور وہی شتر گربہ!
الفاظ بدلو

دیکھ کر ان کی جوانی کو انیس
یاخدایا اے خدایا کیجیے
.. خدایا کا مطلب ہی اے خدا ہوتا ہے مصرع بدل دو.۔
جزاك الله
 
Top