غزل برائے اصلاح

اشرف علی

محفلین
سر .. !

کہتے تھے جو کبھی نہ کریں گے کسی سے پیار
اشرف ! ہم ان کے دل سے جگر تک اتر گئے
(کیا دوسرا مصرع غالبؔ کے مصرع سے ٹکرا رہا ، ایسا کہا جا سکتا ہے ؟)

یا

کہتے تھے جو کبھی نہ کریں گے کسی سے پیار
تم ان کے دل میں کس طرح اشرف اتر گئے


سر ! کیا یہ شعر ٹھیک ہے اور اسے بطور مقطع رکھا جا سکتا ہے یا اس میں کچھ اصلاح کی ضرورت ہے ؟
محترم الف عین صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
محترم محمد خلیل الرحمٰن صاحب
 

الف عین

لائبریرین
دل سے جگر تک تیر نگاہ تو چھیدتی ہوئی اتر سکتی ہے لیکن اشرف مسلّم کیسے اتر گئے؟
ہاں دوسرا مقطع ٹھیک ہے، اس مقطع کا خیال اچھا ہے، کسی اور طرح الفاظ بدل کر باندھو
 

اشرف علی

محفلین
دل سے جگر تک تیر نگاہ تو چھیدتی ہوئی اتر سکتی ہے لیکن اشرف مسلّم کیسے اتر گئے؟
ہاں دوسرا مقطع ٹھیک ہے، اس مقطع کا خیال اچھا ہے، کسی اور طرح الفاظ بدل کر باندھو
جی سر ! بہت بہت شکریہ

دوسرا مقطع کا دوسرا مصرع اگر یوں کر دوں ...

اشرف تمہارے شعر §شگفتہ§ ہیں اس قدر
سنتے ہی اہلِ ذوق کے دل میں اتر گئے

پہلا مقطع کا دوسرا متبادل کیسا ہے سر ؟
 

اشرف علی

محفلین
'سنتے ہی اہلِ ذوق کے دل میں اتر گئے ' کی جگہ 'پڑھتے ہی اہلِ ذوق کے دل میں اتر گئے' لا سکتے ہیں ؟
 
آخری تدوین:

اشرف علی

محفلین
لاتو سکتے ہیں لیکن محاورہ سننے کا زیادہ مستعمل ہے
ٹھیک ہے سر
بہت بہت شکریہ
جزاک اللّٰہ خیراً

غزل ( ترمیم شدہ )

جو بھی تِری پناہ میں آ کر ٹھہر گئے
شاہد وہ خود ہیں ، ان کے مقدر سنور گئے

غم ہے کہ تیرے ہجر میں لذّت نہیں رہی
دکھ ہے کہ تیرے وصل کے ارمان مر گئے

اس نے فقط نگاہ اٹھائی تھی ایک بار
محفل میں جتنے بگڑے ہوئے تھے ، سدھر گئے

وعدہ تھا جن کا ہم سے نبھائیں گے عمر بھر
دو چار دن میں ہی وہ زمانے سے ڈر گئے

جادو تھا لمس کا یا حیا کا کمال تھا
جیسے ہی میں نے ان کو چھوا ، وہ نکھر گئے

میں نے کبھی بچھائے تھے راہوں میں جن کی پھول
دامن کو میرے آج وہ کانٹوں سے بھر گئے

اشرف تمہارے شعر شگفتہ ہیں اس قدر
سنتے ہی اہلِ ذوق کے دل میں اتر گئے
 
Top