سید تنویر رضا
محفلین
الف عین سر
زخم دیتا ہے بجز زخم یہ کیا دیتا ہے
یہ زمانہ یہی انعام وفا دیتا ہے
آنکھ مشکل سے جو لگتی ہے کبھی راتوں کو
درد آکر مرے شانوں کو ہلا دیتا ہے
سب کی تقدیر میں غم ہے امرا ہو کے غریب
یہ وہ دولت ہے جو ہر اک کو خدا دیتا ہے
وہ مسیحائی بھی کرتا ہے بہ انداز دگر
اپنے بیمار کو مرنے کی دعا دیتا ہے
سرد ہوجاتی ہے دل میں جو کبھی آتشِ عشق
حسن سفاک ہے پھر آگ لگا دیتا ہے
حوصلے یوں تو مددگار ہیں صاحب لیکن
وقت حالات کے قدموں پہ گرا دیتا ہے
اس کی مرضی پہ ہی راضی ہوں میں تنویر کہ جو
کچھ جو لیتا ہے تو کچھ اس سے سوا دیتا ہے
سید تنویر رضا
زخم دیتا ہے بجز زخم یہ کیا دیتا ہے
یہ زمانہ یہی انعام وفا دیتا ہے
آنکھ مشکل سے جو لگتی ہے کبھی راتوں کو
درد آکر مرے شانوں کو ہلا دیتا ہے
سب کی تقدیر میں غم ہے امرا ہو کے غریب
یہ وہ دولت ہے جو ہر اک کو خدا دیتا ہے
وہ مسیحائی بھی کرتا ہے بہ انداز دگر
اپنے بیمار کو مرنے کی دعا دیتا ہے
سرد ہوجاتی ہے دل میں جو کبھی آتشِ عشق
حسن سفاک ہے پھر آگ لگا دیتا ہے
حوصلے یوں تو مددگار ہیں صاحب لیکن
وقت حالات کے قدموں پہ گرا دیتا ہے
اس کی مرضی پہ ہی راضی ہوں میں تنویر کہ جو
کچھ جو لیتا ہے تو کچھ اس سے سوا دیتا ہے
سید تنویر رضا