میرے آنگن میں لوگو یہ خوشبو کے انبار کیسے
فقط اک تصور سے حریمِ جاں میں بہار کیسے
زمیں بوس ہوئی جس شاخ کو بھی تھاما سہارے کیلئے
تُو ہی بتا میرے قاتل ! کروں تجھ پہ اعتبار کیسے ؟
مقفل ہی رہے زنداں اور مضطر یہ میری جاں
رہی غافل خودی جو، بظاہر غلامیوں سے فرار کیسے
تیرے ہوتے بے نِشاں ہو چکی ذات میری
تھکے چمک چمک حسرتوں کے جگنو میرے معمار کیسے
سُنے ہیں وصل کے قصے، سہا ہے ہجر کا موسم
وصال و ہجر کی کشمکش میں جیتے ہیں بیمار کیسے
السلامُ علیکم۔
مجھے بحر اور وزن کے متعلق کچھ عِلم نہیں۔ اساتذہ رہنمائی فرمائیں۔
بحر وہی مفاعلاتن یعنی رجز مثمن مرفل مخبون۔
اس غزل میں ایک مصرع بحرِ ہزج مفاعیلن (چار بار) پر بھی موزوں ہوتا ہے:
سُنے ہیں وصل کے قصے، سہا ہے ہجر کا موسم
اب دونوں میں سے شاعرہ کس میں موزوں کرے یہ اس پر منحصر ہے۔
مشورہ یہ ہے کہ غزل کو گا کر کہیں، امیر خسرو کی غزل ”زحال مسکیں مکن تغافل درائے نینا بنائے بتیاں“ کی دھن میں اپنی غزل کو گنگنا کر دوبارہ کہیں۔
یا پھر کوئی بھی غزل یا کوئی کلاسیکی گانا لیجئے، اس کی دھن میں اپنے خیالات کو گنگنائیں، غزل خود ہی موزوں ہو جائے گی۔ پھر اس کی اصلاح یہاں سے لے لیں۔
اس ٹوٹکے سے یہاں کئی اراکین جو موزوں طبع نہیں تھے وہ شاعر بن گئے۔ آپ بہت اچھا کہہ سکتی ہیں لیکن کمی موزونیِ طبع کی ہی ہے۔
المیہ یہ ہے کہ اچھے مضامین اور خیالات کے حامل لوگوں کی طبیعت میں موزونیت کا فقدان پایا جاتا ہے، اور جو موزوں طبع ہوتے ہیں انہیں یا تو شعر کہنے کا وقت نہیں، یا شاعرانہ خیالات سے فارغ ہوتے ہیں
ہائے یہ اردو شاعری!!!