غزل برائے اصلاح

زلف تیرا یه هم كو مار نه دے

اس قدر تو ھمیں پیار نه دے

زخم ایجاد کر کوئ تو نیا

روز تو رنج بے خمار نه دے

زدگی اب مجھے یه بوجھ لگے

رینگتی زیست پر یه بار نه دے

ھو مبارک تجھے یه فصل گل

ھم کو لوٹی ھوئ بھار نه دے

شوخ ھونٹوں په طنز كيوں

اس ادا سے ھمیں قرار نه دے

دور سے دیکھ کر شاد ھو دل

لب و عارض و زلف یار نه دے

جائو گے چھوڑ کر یه ساتھ نه تم

زندگی اب یه اعتبار نه دے
 
رحیم ساگر بلوچ ، انیس الرحمن ۔
اس غزل پر عروضی حوالے سے جناب مزمل شیخ بسمل کی رائے کا انتظار کر لیجئے۔
میں نے اس کی بحر نئے عروض کے مطابق ’’فاعلن فاعلات فاعلتن‘‘ نکالی ہے، اس میں فاعلتن کے مقابل مفعولن آ سکتا ہے۔ اور ایک اضافی ہجائے کوتاہ کی عام اجازت بھی ہے۔
شعر بہ شعر ملی جلی رائے پیش کئے دیتا ہوں۔
 
زلف تیرا یه هم كو مار نه دے

اس قدر تو ھمیں پیار نه دے
سب سے پہلی بات: اردو میں کوئی لفظ دوچشمی ھ سے شروع نہیں ہوتا (خطاطی کی بات الگ ہے)۔ آپ نے غزل میں ہر جگہ ’’ہ‘‘ کو ’’ھ‘‘ لکھا ہے۔ درستی فرما لیجئے گا۔

زلف مونث مروج اور مسلمہ ہے۔ پیار کا ’’ے‘‘ تقطیع میں نہیں آتا، اس کو شعر میں ’’پار‘‘ کے وزن پر پڑھتے ہیں۔ شعر کا خیال عمدہ ہے۔
 
آخری تدوین:
زدگی اب مجھے یه بوجھ لگے

رینگتی زیست پر یه بار نه دے

یہاں محسوس ہو رہا ہے کہ بات یا تو پوری کی نہیں گئی یا قاری تک نہیں پہنچی۔ ’’زدگی‘‘ غالباً ’’زندگی‘‘ ہے (کتابت کی غلطی)۔
زندگی بوجھ ہے اور رینگتی زندگی پر یہ بوجھ نہ ڈال؟ اس کو دیکھ لیجئے گا۔
پہلے مصرعے کی لفظیات بہتر ہو سکتی ہیں: زندگی اب تو بوجھ لگتی ہے، وغیرہ۔
 
ھو مبارک تجھے یه فصل گل

ھم کو لوٹی ھوئ بھار نه دے
مجھے ذاتی طور پر ’’تجھے یہ‘‘ ادا کرنا ثقیل لگتا ہے۔ دوسرا مصرع ’’ہم کو لوٹی ہوئی بہار نہ دے‘‘ : یہاں محاورے کا مسئلہ نہیں کیا؟ بہاریں لوٹنا۔ آپ کا مقصوڈ غالباً ’’اجڑی ہوئی بہار‘‘ ہے۔ پہلا مصرع اگر یوں ہو: ’’تجھ کو یہ فصلِ گل مبارک ہو‘‘ تو کسی قدر سہولت ہو جاتی ہے۔ بہ ایں ہمہ دونوں مصرعوں میں تعلق کچھ کمزور لگتا ہے۔
 
دور سے دیکھ کر شاد ھو دل

لب و عارض و زلف یار نه دے
پہلا مصرع موجودہ املاء میں وزن سے خارج ہے، اور دوسرا بھی مجھے مطمئن نہیں کر رہا۔
آپ کا مقصود شاید یہ ہے کہ: مجھے تیرے لب و عارض و زلف کا قرب میسر نہیں تو میں تجھے دور سے دیکھ کر ہی خوش ہو لیتا ہوں۔ الفاظ اس مفہوم کا ساتھ نہیں دے رہے۔
 
جائو گے چھوڑ کر یه ساتھ نه تم

زندگی اب یه اعتبار نه دے
املاء دیکھ لیجئے ’’جاؤ گے‘‘ ۔ دونوں مصرعوں میں لفظ ’’یہ‘‘ کا مقام بن نہیں رہا۔ دوسرے میں پھر بھی گنجائش ہے۔ مناسب ہو گا کہ اس شعر کو پھر سے کہہ لیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت آداب۔
 
املاء دیکھ لیجئے ’’جاؤ گے‘‘ ۔ دونوں مصرعوں میں لفظ ’’یہ‘‘ کا مقام بن نہیں رہا۔ دوسرے میں پھر بھی گنجائش ہے۔ مناسب ہو گا کہ اس شعر کو پھر سے کہہ لیں۔

۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
بہت آداب۔

بہت شکر گزار ھوں آپکا اس قدر تفصیل سے اصلاح کیا. اور میں نے بحر فاعلا تن مفاعلن فعلن په لكهنے کی کوشش کی لگتا ھے میں پٹڑی سے ا تر گیا دوباره بحال کرنے کی کوشش کرتا ھوں. املآا کی غلطیوں کی وجه موبائل ھے.آپ کیلئے بہت ساری دعائیں.مھربانی.
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
ٹیگ کے لیے شکریہ انیس بھائی۔۔۔ لیکن استاد محترم نے بہترین اصلاح فرمائی۔۔ ہمیں بھی ان سے سیکھنے کو ملتا ہے۔۔۔
 
ٹیگ کے لیے شکریہ انیس بھائی۔۔۔ لیکن استاد محترم نے بہترین اصلاح فرمائی۔۔ ہمیں بھی ان سے سیکھنے کو ملتا ہے۔۔۔
شاھد بھائ مجھے بحر فاعلاتن مفاعلن فعلن په لكهنے کیلئے مصرع دیا گیا تھا جناب آسی صاحب نے دوسرا بحر نکالا ھے آپ میری رھنمائ کریں كه اس كا ميرے مطلوبه بحر ميں تقطیع ھو سکے
 
بہت شکر گزار ھوں آپکا اس قدر تفصیل سے اصلاح کیا. اور میں نے بحر فاعلا تن مفاعلن فعلن په لكهنے کی کوشش کی لگتا ھے میں پٹڑی سے ا تر گیا دوباره بحال کرنے کی کوشش کرتا ھوں. املآا کی غلطیوں کی وجه موبائل ھے.آپ کیلئے بہت ساری دعائیں.مھربانی.
یہ وہی بحر ہے۔ فاعلاتن مفاعلن فعلن اور فاعلن فاعلات فاعلتن یا مفعولن ۔۔۔۔۔ بالکل ایک ہیں۔ صرف ارکان بندی کا فرق ہے۔

ویسے آپس کی بات ہے موبائل بےچارے سے پورے کمپیوٹر کا کام نہ لیں آپ، سائیں! :)
 
شاھد بھائ مجھے بحر فاعلاتن مفاعلن فعلن په لكهنے کیلئے مصرع دیا گیا تھا جناب آسی صاحب نے دوسرا بحر نکالا ھے آپ میری رھنمائ کریں كه اس كا ميرے مطلوبه بحر ميں تقطیع ھو سکے
جیسے میں عرض کر چکا، یہ دونوں انداز کی ارکان بندی ایک ہی بحر ہے۔
شاہد شاہنواز
 

سید عاطف علی

لائبریرین
سب سے پہلی بات: اردو میں کوئی لفظ دوچشمی ھ سے شروع نہیں ہوتا (خطاطی کی بات الگ ہے)۔ آپ نے غزل میں ہر جگہ ’’ہ‘‘ کو ’’ھ‘‘ لکھا ہے۔ درستی فرما لیجئے گا۔
زلف مذکر مروج اور مسلمہ ہے۔ پیار کا ’’ے‘‘ تقطیع میں نہیں آتا، اس کو شعر میں ’’پار‘‘ کے وزن پر پڑھتے ہیں۔ شعر کا خیال عمدہ ہے۔
محترم آسی صاحب۔ ہم تو زلف کو مؤنث سنتے آئے ہیں۔
 
یہ وہی بحر ہے۔ فاعلاتن مفاعلن فعلن اور فاعلن فاعلات فاعلتن یا مفعولن ۔۔۔ ۔۔ بالکل ایک ہیں۔ صرف ارکان بندی کا فرق ہے۔

ویسے آپس کی بات ہے موبائل بےچارے سے پورے کمپیوٹر کا کام نہ لیں آپ، سائیں! :)
بهيا جي شكريه ميرے دشت ویراں میں کوئ DSL يا wifi نهیں ھے.میری مجبوری کو سمجھیں
 
Top