غزل برائے اصلاح

md waliullah qasmi

محفلین
السلام علیکم
میں اس جگہ نیا ہوں اور غزل کہنے میں بھی نیا ہوں یہ میری پہلی غزل ہے برائے مہربانی اس کی اصلاح فرما دیں

ہم کو اس ملک سے جو لوگ مٹانے نکلے
،،اپنے ہی خون کے دریا میں نہانے نکلے،،
آج پھر اس کی محبت کے فسانے نکلے
جس کی نسبت سے کئی زخم پرانے نکلے
میرے دل سے یہ غزل کے جو ترانے نکلے
تیرے دامن میں ستاروں کو سجانے نکلے
آج تک جس کی محبت کو بسایا دل میں
بے وفائی کا وہ الزام لگانے نکلے
جن کے گھر بار کو جلنے سے بچایا میں نے
گھر میرا آج وہی لوگ جلانے نکلے
زندگانی کو حقیقت جو سمجھ بیٹھے تھے
موت آئی تو حقیقت میں فسانے نکلے
رابطہ ختم ہوا اس کا ولی سے صاحب
اس سے ملنے کے کوئی اور بہانے نکلے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
السلام علیکم
میں اس جگہ نیا ہوں اور غزل کہنے میں بھی نیا ہوں یہ میری پہلی غزل ہے برائے مہربانی اس کی اصلاح فرما دیں

ہم کو اس ملک سے جو لوگ مٹانے نکلے
،،اپنے ہی خون کے دریا میں نہانے نکلے،،
آج پھر اس کی محبت کے فسانے نکلے
جس کی نسبت سے کئی زخم پرانے نکلے
میرے دل سے یہ غزل کے جو ترانے نکلے
تیرے دامن میں ستاروں کو سجانے نکلے
آج تک جس کی محبت کو بسایا دل میں
بے وفائی کا وہ الزام لگانے نکلے
جن کے گھر بار کو جلنے سے بچایا میں نے
گھر میرا آج وہی لوگ جلانے نکلے
زندگانی کو حقیقت جو سمجھ بیٹھے تھے
موت آئی تو حقیقت میں فسانے نکلے
رابطہ ختم ہوا اس کا ولی سے صاحب
اس سے ملنے کے کوئی اور بہانے نکلے

ولی اللہ قاسمی صاحب ۔السلام علیکم اور محفل میں خوش آمدید !
برادرم غزل اچھی ہے ۔ بہت داد آپ کیلئے ۔اگر آپ شاعری میں واقعی نئے ہیں تو یہ بڑی خوش آئند بات ہے کیونکہ اس طرح کا کلام اکثر اوقات اچھی خاصی مشق کو ظاہر کرتا ہے ۔ وزن اور بحر کے لحاظ سے تو غزل بے نقص ہے سوائے اس کے کہ گھر میرا آج وہی لوگ جلانے نکلے والے مصرع میں میرا کو مرا کرلیجئے تو فاعلاتن کے وزن پر آجائے گا۔ اس کے علاوہ دو تین اشعار میں زبان و بیان کے معمولی سے مسائل ہیں انہیں ایک نظر دیکھ لیجئے۔

میرے دل سے یہ غزل کے جو ترانے نکلے
تیرے دامن میں ستاروں کو سجانے نکلے

یہ شعر دو لخت ہے۔ دونوں مصرعوں کا باہمی ربط واضح نہیں ہوتا ۔ مزید برآں پہلا مصرع میں کہی گئی بات متاثر کن نہیں ۔ دل سے غزل کے ترانے نکلنا ذراکھٹکتا ہے ۔


آج تک جس کی محبت کو بسایا دل میں
بے وفائی کا وہ الزام لگانے نکلے

اس شعر میں شتر گربہ ہے ۔ جس کو جن کرلیجئے ۔واحد جمع کا تضاد ختم ہوجائے گا جیسا کہ آپ نے اس سے اگلے شعر میں کیا ہے ۔

زندگانی کو حقیقت جو سمجھ بیٹھے تھے
موت آئی تو حقیقت میں فسانے نکلے

پہلے مصرع میں لفظ جو استعمال کرنے کے بعد دوسرا مصرع اس کے مشار الیہ کا متقاضی ہے ۔ یعنی وہ کون جو زندگی کو حقیقت سمجھ بیٹھے تھے؟؟ یا تو پہلے مصرع سے لفظ جو کو ختم کیجئے یا پھر دوسرے مصرع کو اس کے مطابق کیجئے۔

رابطہ ختم ہوا اس کا ولی سے صاحب
اس سے ملنے کے کوئی اور بہانے نکلے

یہ شعر تو ہوائی جہاز ہے ۔ میرے سر سے گزر گیا ۔ :):):)میرا خیال ہے کہ اس میں دوسرا مصرع جملہء تمنائی ہے ۔ اگر ایسا ہے تو پھر یہاں نکلے کے بجائے نکلئے کا محل ہے۔
 
Top