اچھی غزل ہے۔ داد قبول کیجیے۔ کچھ صلاح مشورے بھی
میرا دل اضطراب رکھتا ہے
جیسے صحرا سراب رکھتا ہے
اضطراب رکھنا خلافِ محاورہ نہیں؟
دوسرے مصرعے کا جیسے یہ تقاضا کرتا ہے کہ پہلے مصرع میں ایسے ہو۔
رتجگے آنکھوں میں سمائے ہیں
اور دل تیرے خواب رکھتا ہے
مصرع ِ اول کے لیے ایک تجویز
رتجگے بس گئے ہیں آنکھوں میں
کتنے دکھ جھیلے ہیں خوشی کے لیے
کون اس کا حساب رکھتا ہے
جیسے دن کے ساتھ رات اچھا لگتا ہے نہ کہ شب اسی طرح دکھ کے ساتھ سکھ اور خوشی کے ساتھ غم
میری سب حسرتیں لکھے گا کیا
جو عمل کی کتاب رکھتا ہے
سب بھرتی کا ہے، دوسرے مصرع کا جو پہلے میں وہ چاہتا ہے،ایک تجویز
وہ مری حسرتیں لکھے گا کیا
جو بیاں میں نہیں سما سکتے
عشق ایسے عذاب رکھتا ہے
ٹھیک ہے
پانی کی بوند کو ترستا ہے
کہنے کو وہ سحاب رکھتا ہے
کون ترستا ہے بات واضح نہیں
جو پسِ لفظ ہیں صفی ایسے
وہ کہانی میں باب رکھتا ہے
ٹھیک ہے
نوٹ اتفاق یا عدم اتفاق آپ کا حق ہے
بہت نوازش ہے ۔آپ نے اپنی قیمتی رائے سے نوازا۔آپ کی دی ہوئی تمام تجاویز بر محل ہیں جو غزل کی روانی اور حسن و لطافت کو بڑھا رہی ہیں ۔پہلے شعر میں خلافِ محاورہ ہونے کی جو نشاندہی آپ نے کی درست ہے ۔دوسرے شعر میں آپ کا تجویز کردہ مصرعہ ۔" رتجگے بس گئے ہیں آنکھوں میں " زیادہ عمدہ ہے ۔دکھ کے لفظ کے ساتھ سکھ کا لفظ لانے کی کوشش کروں گا۔ "وہ مری حسرتیں لکھے گا کیا " زیادہ عمدہ مصرع ہے ۔
پانی کی بوند کو ترستا ہے
کہنے کو جو سحاب رکھتا ہے
اگر "وہ " کے بجائے " جو" لکھ دیا جائے تو ابہام ختم ہو جاتا ہے کہ کون ترستا ہے ؟؟
آپ نے جو میری راہنمائی کی اس سے دلی خوشی ہوئی ہے ۔ آپ کی دی ہوئی تجاویز کے مطابق غزل میں تبدیلیاں کر دوں گا ۔ امید ہے اور آپ سے درخواست ہے کہ آئندہ بھی آپ اپنی تجاویز سے نوازتے رہیں گے۔جو میرے لیے مشعلِ راہ کی طرح ہیں ۔آپ کی قیمتی رائے کا منتظر رہوں گا ۔
رتجگے آنکھوں میں سمائے ہیں
رتجگے آنکھوں میں سمائے ہیں