غزل برائے اصلاح

ائے شمع تجھ سے محبت کچھ نہیں
اب اجالے کی ضرورت کچھ نہیں
ہے گلہ اپنے مقدر سے فقط
دنیا والوں سے شکایت کچھ نہی
دیکھکر گھائل کو آگے بڑھ گئے
دل میں لوگوں کی مروت کچھ نہیں
ہو گیا برباد تو وہ چل دیئے
مجھ پہ اب انکی عنایت کچھ نہیں
مسکراہٹ ہے لبوں پر قرض کی
اپنی خوشیوں کی تو دولت کچھ نہیں
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اے شمع تجھ سے محبت کچھ نہیں
اب اجالے کی ضرورت کچھ نہیں
۔۔۔ مطلعے کے دونوں مصرعوں میں لفظ "کچھ" اضافی معلوم ہوتا ہے اور لفظ شمع کا تلفظ مجھے یہاں کھٹک رہا ہے ۔۔ ممکن ہے درست ہو۔
ہے گلہ اپنے مقدر سے فقط
دنیا والوں سے شکایت کچھ نہی
۔۔۔ دنیا والوں میں اسقاط کی بجائے یہ بھی کرسکتے ہیں: اب زمانے سے شکایت کچھ نہیں ۔۔۔ بہرحال، مقدر سے گلہ کرنا کوئی اچھی بات نہیں۔ پھر بھی شاعر لوگ ایسا بہت کچھ کہہ جاتے ہیں ۔۔۔

دیکھکر گھائل کو آگے بڑھ گئے
دل میں لوگوں کی مروت کچھ نہیں
۔۔۔ دل میں لوگوں کے، مروت کچھ نہیں ۔۔۔
ہو گیا برباد تو وہ چل دیئے
مجھ پہ اب انکی عنایت کچھ نہیں
۔۔۔ تو ، وہ ۔۔۔ غیر فصیح ہے ۔۔۔ بدل سکتے ہیں ۔۔۔
مسکراہٹ ہے لبوں پر قرض کی
اپنی خوشیوں کی تو دولت کچھ نہیں
"تو دولت" کی جگہ "بدولت" کرسکتے ہیں ۔۔۔
 
اے شمع تجھ سے محبت کچھ نہیں
اب اجالے کی ضرورت کچھ نہیں
۔۔۔ مطلعے کے دونوں مصرعوں میں لفظ "کچھ" اضافی معلوم ہوتا ہے اور لفظ شمع کا تلفظ مجھے یہاں کھٹک رہا ہے ۔۔ ممکن ہے درست ہو۔
ہے گلہ اپنے مقدر سے فقط
دنیا والوں سے شکایت کچھ نہی
۔۔۔ دنیا والوں میں اسقاط کی بجائے یہ بھی کرسکتے ہیں: اب زمانے سے شکایت کچھ نہیں ۔۔۔ بہرحال، مقدر سے گلہ کرنا کوئی اچھی بات نہیں۔ پھر بھی شاعر لوگ ایسا بہت کچھ کہہ جاتے ہیں ۔۔۔

دیکھکر گھائل کو آگے بڑھ گئے
دل میں لوگوں کی مروت کچھ نہیں
۔۔۔ دل میں لوگوں کے، مروت کچھ نہیں ۔۔۔
ہو گیا برباد تو وہ چل دیئے
مجھ پہ اب انکی عنایت کچھ نہیں
۔۔۔ تو ، وہ ۔۔۔ غیر فصیح ہے ۔۔۔ بدل سکتے ہیں ۔۔۔
مسکراہٹ ہے لبوں پر قرض کی
اپنی خوشیوں کی تو دولت کچھ نہیں
"تو دولت" کی جگہ "بدولت" کرسکتے ہیں ۔۔۔
مطلع
مجھ پہ گو تیری عنایت کچھ نہیں
زندگی تجھ سے شکایت کچھ نہیں
 
Top