مانی عباسی
محفلین
یہ حق گو سر پھرا ہے اور اس کا کیا کیا جائے
فصیل_شہر_باطل میں اسے چنوا دیا جائے
تمنا غرق آبی کی لیے کب تک جیا جائے
سفینوں میں شگاف اے نا خداؤ کر لیا جائے
ہے میرا عکس آئینے میں اور دیورا پر سایہ
چلو اس بزم_خود میں آج خود سے مل لیا جائے
ہوئ مدت کسی نے سنگ باری کی نہیں مجھ پر
مرا سر کہتا ھے تیری گلی کا رخ کیا جائے
کہیں اس ھجر نے آب_بقا تو پی نہیں رکھا
میں زہر_وصل دوں اس کو,مگر پهر بهی جیا جائے
شراب_خود فریبی کا زمانہ تو گیا مانی
میری آنکھوں کو اب جام_خود آگاہی دیا جائے