غزل برائے اصلاح

عاطف ملک

محفلین
میری اولین کوشش پوسٹ مارٹم کے لیے پیش ہے۔
اِصلاح کی درخواست ہے۔



سربَسر آہُ فُغاں گِریہ و نالہ دِل کا
اب کے جاتا ہی نہیں درد یہ پا لا دل کا
آرزو ہائے صنم شِکوہِ صد رنج و الم
دیکھ حیرا ن ہوں یہ طور نِرالا دِل کا
دیکھ کر بزمِ رقیباں میں اُسے پھوٹ پڑا
ایک مدت سے تھا جو زخم سنبھالا دل کا​
اُس کی ہر ایک جفا میں نے سرِ بزم پڑھی
خوب میں نے بھی یوں ارمان نِکالا دل کا
خبر ہے کوچہِ جاناں میں تڑپتا ہے ہنوز
ہم نشیں جا کہ وہاں لاشہ اُٹھا لا دل کا
جن کے آنگن میں ہوس بھوک کا خوں کرتی ہے
اپنی باتوں میں وہ دیتے ہیں حوالہ دل کا
لوگ کہتے ہیں کہ عاطف بھی تھا اِک سودائی
ڈھونڈتا پھرتا تھا اِس جگ میں اُجالا دل کا
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
پہلی کوشش؟ اگر یہ بات درست ہے تو ماشاء اللہ!

اُس کی ہر ایک جفا میں نے سرِ بزم پڑھی
خوب میں نے بھی یوں ارمان نِکالا دل کا
جفا کس طرح ’پڑھی‘ جا سکتی ہے؟

خبر ہے کوچہِ جاناں میں تڑپتا ہے ہنوز
ہم نشیں جا کہ وہاں لاشہ اُٹھا لا دل کا
پہلا مصرع بحر سے خارج ہے۔ مطلب شاید یوں ہے کہ ’وہاں سے لاشہ اٹھا لا‘ محض ’وہاں‘ سے مطلب نہیں نکلتا۔

جن کے آنگن میں ہوس بھوک کا خوں کرتی ہے
اپنی باتوں میں وہ دیتے ہیں حوالہ دل کا
÷÷آنگن میں؟
 

عاطف ملک

محفلین
استادِ محترم جناب اعجاز عبید کی اصلاح کے بعد مکمل غزل پیشِ نظر ہے۔

سر بسر آہ و فغاں گریہ و نالہ دل کا
اب کے جاتا ہی نہیں درد یہ پالا دل کا
آرزو ہائے صنم شکوہِ صد رنج و الم
دیکھ حیران ہوں یہ طور نرالا دل کا
دیکھ کر بزمِ رقیباں میں انہیں جاگ اٹھا
ایک مدت سے تھا جو درد سنبھالا دل کا
ان کی ہر ایک جفا میں نے سرِ بزم کہی
خوب میں نے بھی یوں ارمان نکالا دل کا
چشمِ نم دیدہ تڑپ کر یہ خِرد سے بولی
جھوٹ تھا! جھوٹ تھا! ہر ایک حوالہ دل کا
کس قدر کفر پہ مائل تھی طبیعت اس کی
طالبِ وصل نہ تھا۔۔۔۔۔۔۔ چاہنے والا دل کا
گم ہے اب تک وہ کہیں نفرتوں کی گھاٹی میں
جو کبھی نکلا تھا سر کرنے ہمالہ دل کا
لوگ کہتے ہیں کہ عاطف بھی تھا اک سودائی
ڈھونڈتا پھرتا تھا دنیا میں اجالا دل کا

کاشف اسرار احمد بھائی۔۔۔۔اب کے زخم نہیں پھوڑا،درد جگایا ہے۔
 
آخری تدوین:
Top