محمد فائق
محفلین
نہ رستہ اور نہ منزل جانتا ہوں
سرِ راہِ محبت چل رہا ہوں
یہ راہِ عشق ہے یا کوئی صحرا
کہ ہر خواہش کو تشنہ دیکھتا ہوں
تری یادوں کا موسم بھاگیا ہے
میں خود کو بھول جانا چاہتا ہوں
سمجھتا کیوں نہیں تو مجھ کو آخر
بالآخر میں ترا ہی آئینہ ہوں
تری طرح نہیں مجرم وفا کا
یہ دعویٰ بھی نہیں کہ پارسا ہوں
گماں ہوتا ہے ویرانے کا مجھ کو
میں اپنے دل میں جب بھی جھانکتا ہوں
تقابل کیا بھلا ہو ان سے میرا
وہ خنجر ہیں تو میں بسمل نما ہوں
ندامت سے نہیں اٹھتی نگاہیں
میں جب اعمال اپنے دیکھتا ہوں
انھے فائق میں کیسے بھول جاتا
میں کب مانند ان کے بے وفا ہوں
سرِ راہِ محبت چل رہا ہوں
یہ راہِ عشق ہے یا کوئی صحرا
کہ ہر خواہش کو تشنہ دیکھتا ہوں
تری یادوں کا موسم بھاگیا ہے
میں خود کو بھول جانا چاہتا ہوں
سمجھتا کیوں نہیں تو مجھ کو آخر
بالآخر میں ترا ہی آئینہ ہوں
تری طرح نہیں مجرم وفا کا
یہ دعویٰ بھی نہیں کہ پارسا ہوں
گماں ہوتا ہے ویرانے کا مجھ کو
میں اپنے دل میں جب بھی جھانکتا ہوں
تقابل کیا بھلا ہو ان سے میرا
وہ خنجر ہیں تو میں بسمل نما ہوں
ندامت سے نہیں اٹھتی نگاہیں
میں جب اعمال اپنے دیکھتا ہوں
انھے فائق میں کیسے بھول جاتا
میں کب مانند ان کے بے وفا ہوں
آخری تدوین: