غزل برائے اصلاح

واقعی یہاں گڑبڑ ہوگئی ہے۔ یہ ردیف والی بات صرف آسانی کے لیے ہے ورنہ ی، الف اور ں بالترتیب وصل، خروج اور مزید کہلاتے ہیں۔ یہ وہ حروف ہیں جو قافیے میں حرفِ روی کے بعد آتے ہیں۔
سر اس اصول کے لخاظ سے بغیر ردیف (بطور الفاظ) کے اشعار کہنا نہایت ہی مشکل کام ہے :unsure:
 
آخری تدوین:
جی منصور محبوب چوہدری صاحب، میرا بھی یہ ہی خیال ہے۔
اور غلطی سے میں اس مشکل کام میں ٹانگ پھنسا بیٹھا
اس خاکسار کے خیال میں بغیر ردیف کے اشعار کے لیے ایسے قوافی چنیں جائے جن کے آخری حروف گرانے سے کوئی اور لفظ نہ بنتا ہو تو شاید کچھ مشکل آسان ہوجائے
 
آخری تدوین:
اس خاکسار کے خیال میں بغیر ردیف کے اشعار کے لیے ایسے قوافی چنیں جائے جن کے آخری گرانے سے کوئی اور لفظ نہ بنتا ہو تو شاید کچھ مشکل آسان ہوجائے
جی بہتر ہے، اس غزل کے ساتھ کشتی کرتا ہوں۔ ویسے اس حرکت سے ایک فائدہ تو ہوا ہے کہ حرف روی اور ردیف کے حوالے سے معلومات میں اضافہ ہو گیا اور کچھ غلط فہمیاں بھی دور ہو گئیں۔
 
جناب محترم الف عین صاحب کج فہمی کی معافی چاہتا ہوں۔ لیکن اشعار کی تبدیلی کے بعد شوخی، بدلی، گرمی، بولی، سسکی، خامی، تلخی۔ یہ تمام تو ہم قافیہ ہی ہیں؟
معذرت کے ساتھ سوال دہرا رہا ہوں کہ اصلاح کے عمل میں اگر سوال نہ کروں تو ناکام رہوں گا۔ امید کرتا ہوں کہ آپ مجھ جیسے نالائقوں کی خطاؤں کو درگزر کرتے رہیں گے۔
ان قوافی کو درست مانا جا سکتا ہے.
 
بہت شکریہ جناب محمد ریحان قریشی صاحب، ابھی تک اس بارے میں سوچ رہا تھا۔ آپ نے مہربانی فرمائی۔
مجهے خود بهی اب اس پر تحقیق کرنی ہوگی. مصادر قوافی شوخ، گرم وغیرہ ہیں جن میں روی کا اختلاف موجود ہے. اس لیے میری رائے کو حتمی نہ سمجها جائے.
 

ابن رضا

لائبریرین
شوخی اور اٹھکیلی شوخیاں اور اٹھکیلیاں کی مفرد حالت ہے اور اس میں کہیں روی کا اختلاف نہیں بالکل درست قوافی ہیں ۔
 
شوخی اور اٹھکیلی شوخیاں اور اٹھکیلیاں کی مفرد حالت ہے اور اس میں کہیں روی کا اختلاف نہیں بالکل درست قوافی ہیں ۔
بہت شکریہ جناب ابن رضا صاحب، وضاحت کے لیے۔
اب کچھ کچھ سمجھ آرہی ہے اور کچھ کچھ جو آئی تھی پہلے وہ سمجھ جا رہی ہے۔
بقول جگر
عشق کی داستان ہے پیارے
اپنی اپنی زبان ہے پیارے
تو نہیں میں ہوں میں نہیں تو ہے
اب کچھ ایسا گمان ہے پیارے

معلوم نہیں یہ اس کا محل ہے کہ نہیں مگر نہ جانے کیوں یاد آگیا۔ (n)
 

الف عین

لائبریرین
قوافی درست کر دیے گیے ہیں اس پر میں غور نہیں کر سکا تھا۔ میں نے تو قوافی قبول کر لیے تھے پچھلی صورت میں بھی ۔کہ کہی گئی ہیں اس قسم کی غزلیں۔
 
قوافی درست کر دیے گیے ہیں اس پر میں غور نہیں کر سکا تھا۔ میں نے تو قوافی قبول کر لیے تھے پچھلی صورت میں بھی ۔کہ کہی گئی ہیں اس قسم کی غزلیں۔
شکریہ جناب محترم الف عین صاحب ، آپ کے الفاظ سند کا درجہ رکھتے ہیں میرے لیے۔
 
جناب محترم الف عین صاحب، محترم محمد ریحان قریشی صاحب کیا یہ سارے الفاظ ردیف میں استعمال ہوسکتے ہیں یعنی ہم قافیہ ہے؟
شوخی ---- شوخیاں
بدلی ---- بدلیاں
گرمی ---- گرمیاں
تنہائی ---- تنہائیاں
چنگاری ---- چنگاریاں
خامی ---- خامیاں
تلخی ---- تلخیاں
سرگوشی --- سرگوشیاں
 

الف عین

لائبریرین
جناب محترم الف عین صاحب، محترم محمد ریحان قریشی صاحب کیا یہ سارے الفاظ ردیف میں استعمال ہوسکتے ہیں یعنی ہم قافیہ ہے؟
شوخی ---- شوخیاں
بدلی ---- بدلیاں
گرمی ---- گرمیاں
تنہائی ---- تنہائیاں
چنگاری ---- چنگاریاں
خامی ---- خامیاں
تلخی ---- تلخیاں
سرگوشی --- سرگوشیاں
درست۔ ماہرین عروض کے حساب سے بھی، کہ ما قبل با معنی الفاظ ہیں۔
میں تو با معنی نہ ہونے پر بھی اجازت دے دیتا ہوں کہ کانوں کو تو درست قافیہ محسوس ہوتا ہے۔ اصل قافیہ ہے ’خیاں، لیاں۔ ریاں جو درست ہیں۔ سارے قوافی ’بدلیاں، جھولیاں، بولیاں، گالیاں ہوتے یا چنگاریاں، دوریاں۔ بکریاں ہپوتے تو غلط تھے۔ یا شاید میں اب بھی اپنا ما فی الضمیر واضح کرنے میں ناکام ہوں۔
 
محترم جناب الف عین صاحب بہت مہربانی آپ کی شفقت اور راہنمائی کے لیے، اس حساب سے اگر اس غزل کو یوں لکھا جائے تو آپ کی کیا رائے ہے؟

8CBWEZYl_gju-O0mEKjDNw0Eh_qIbYUu1oZBKfZqOypmLO1gU9NfBBUnKK5HrwoN-VKG8iQn_PvQpZDlbxq0IwVL9dQOy_HcGJ0=s0-d-e1-ft

فتنہ گر ہیں تری زلف کی شوخیاں
چاند سے چہرے پر چھائی ہوں بدلیاں
تیری چنچل نظر میں ہے مستی بھری
تیرے انفاس میں عشق کی گرمیاں
تیری صورت بنا کر میں قرطاس پر
دور کرتا ہوں اب اپنی تنہائیاں
پاس جاتا نہیں شمعِ رخسار کے
میں نے دیکھیں ہیں جب سے وہ چنگاریاں
خام ہے اب تلک تیری حسنِ طلب
ڈھونڈتی ہے نظر عشق میں خامیاں
وصل سے قبل تھی کتنی شیریں زباں
تیرے لہجے میں اب آگئیں تلخیاں
مجھ کو تنہائی کا ڈر نہیں ہے مگر
روگ، ماضی کی ہیں چند سرگوشیاں
 
Top