شیرازخان
محفلین
غزل برائے اصلاح
لچک جن میں نہیں ہوتی وہ اکثر ٹوٹ جاتے ہیں
کئی لوگوں کے دل خود ہی اکڑ کر ٹوٹ جاتے ہیں
اگرچہ بوند پانی کی بہت نازک سی ہوتی ہے
رہے گرتی یہ پتهروں پر تو پتهر ٹوٹ جاتے ہیں
ہمارا حوصلہ ٹوٹا ، نہیں تم نے سنا ہو گا
وہاں مقتل میں سنتے ہیں کہ خنجر ٹوٹ جاتے ہیں
ہزاروں آندهیوں میں بهی نہیں کچے مکاں گرتے
ہوا ابلیس دیتا ہے تو کیوں گهر ٹوٹ جاتے ہیں
سپہ سالار دیتے ہیں یقیں جنگ جیت جانے کا
امیدیں چهوٹ جانے سے تو لشکر ٹوٹ جاتے ہیں
نہیں آساں ازیت کو قلم کی نوک تک لانا
غزل کے امر ہونے تک سخن ور ٹوٹ جاتے ہیں
لچک جن میں نہیں ہوتی وہ اکثر ٹوٹ جاتے ہیں
کئی لوگوں کے دل خود ہی اکڑ کر ٹوٹ جاتے ہیں
اگرچہ بوند پانی کی بہت نازک سی ہوتی ہے
رہے گرتی یہ پتهروں پر تو پتهر ٹوٹ جاتے ہیں
ہمارا حوصلہ ٹوٹا ، نہیں تم نے سنا ہو گا
وہاں مقتل میں سنتے ہیں کہ خنجر ٹوٹ جاتے ہیں
ہزاروں آندهیوں میں بهی نہیں کچے مکاں گرتے
ہوا ابلیس دیتا ہے تو کیوں گهر ٹوٹ جاتے ہیں
سپہ سالار دیتے ہیں یقیں جنگ جیت جانے کا
امیدیں چهوٹ جانے سے تو لشکر ٹوٹ جاتے ہیں
نہیں آساں ازیت کو قلم کی نوک تک لانا
غزل کے امر ہونے تک سخن ور ٹوٹ جاتے ہیں