منصور محبوب چوہدری
محفلین
پیار میں تیرے جو پائے آنسو
مدتوں سب سے چھپائے آنسو
آسماں تاروں سے خالی پاکر
رات بھر میں نے سجائے آنسو
میرے ہاتھوں سے پیا جامِ عشق
اور مجھے تو نے پلائے آنسو
یاد کو تیری بچانے کے لئے
خوشی سے ہم نے گنوائے آنسو
بے بسی، اپنی کا جب آیا خیال
خون کے خود کو رلائے آنسو
اچھا ہو، وہ دے کے کالی چادر
قبر میری پہ بہائے آنسو
لب مرے تر ہو گئے آخر، جب
چل دیے تیرے ستائے آنسو
تیری جھولی میں بچا کیا، منصور
با ادب میں نے دکھائے آنسو
محترم الف عین صاحب
محترم سید عاطف علی صاحب
محترم راحیل فاروق صاحب
محترم محمد ریحان قریشی صاحب
محترم کاشف اسرار احمد صاحب
محترم محمد خلیل الرحمٰن صاحب
اور دیگر اساتذہ کرام اور احباب ۔ اصلاح کے لئے غزل حاضر ہے
مدتوں سب سے چھپائے آنسو
آسماں تاروں سے خالی پاکر
رات بھر میں نے سجائے آنسو
میرے ہاتھوں سے پیا جامِ عشق
اور مجھے تو نے پلائے آنسو
یاد کو تیری بچانے کے لئے
خوشی سے ہم نے گنوائے آنسو
بے بسی، اپنی کا جب آیا خیال
خون کے خود کو رلائے آنسو
اچھا ہو، وہ دے کے کالی چادر
قبر میری پہ بہائے آنسو
لب مرے تر ہو گئے آخر، جب
چل دیے تیرے ستائے آنسو
تیری جھولی میں بچا کیا، منصور
با ادب میں نے دکھائے آنسو
محترم الف عین صاحب
محترم سید عاطف علی صاحب
محترم راحیل فاروق صاحب
محترم محمد ریحان قریشی صاحب
محترم کاشف اسرار احمد صاحب
محترم محمد خلیل الرحمٰن صاحب
اور دیگر اساتذہ کرام اور احباب ۔ اصلاح کے لئے غزل حاضر ہے
آخری تدوین: