غزل برائے اصلاح

بکے گی کیا مری الفت، یہ پتہ کرنا ہے
کون دے گا مجھے قیمت، یہ پتہ کرنا ہے

اپنے ہر بندے سے ہے پیار تجھے اتنا تو پھر
کیوں ہے پھیلی یہاں نفرت، یہ پتہ کرنا ہے

جب زمیں پہ تری ہر صفت کا آئینہ ہوں میں
خواب ہوں میں یا حقیقت، یہ پتہ کرنا ہے

نفس کے آگے ہے جب بےبسی میری، تو پھر
کرتا بھی ہوں میں عبادت، یہ پتہ کرنا ہے

دے جو فریادی کو انصاف ہمیشہ بر وقت
کہاں لگتی وہ عدالت، یہ پتہ کرنا ہے

خاک کے پتلے کو جو آسماں کی خواہش ہے
کس نے دی ہے اسے جرات، یہ پتہ کرنا ہے

دیکھنے کی ہے تمنا جسے کب سے منصور
دیکھ پائے گا بھی صورت ، یہ پتہ کرنا ہے
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
اچھی غزل پیش کی ہے منصور صاحب کافی وقت کے بعد۔۔ ۔البتہ کچھ مقامات قابل توجہ ہیں ۔
جب زمیں پہ تری ہر صفت کا آئینہ ہوں میں
یہاں صفت کو جگر کے وزن پر لایئے۔شاید یہاں جلد کے وزن پر لائے ہیں ،یہ ضروری ہے۔باقی کچھ معمولی چیزیں ہیں ۔
اپنے ہر بندے سے ہے پیار تجھے اتنا تو پھر
کیوں ہے پھیلی یہاں نفرت، یہ پتہ کرنا ہے
یہاں بیان کی لفظی نشست تھوڑی بہتر ہو سکتی ہے۔ مثلا۔اپنے ہر بندے سےگر پیار تجھے اتنا ہے۔۔۔اور ۔۔۔کیوں یہاں پھیلی ہے نفرت۔وغیرہ۔
نفس کے آگے ہے جب بےبسی میری، تو پھر
کرتا بھی ہوں میں عبادت، یہ پتہ کرنا ہے
اس شعر میں مضمون لفظوں میں اچھی طرح سمٹ نہیں رہا۔شاید دوبارہ کہہ لیں ۔
کہاں لگتی وہ عدالت، یہ پتہ کرنا ہے
یہاں بیان میں "ہے"کی کمی ہے۔۔۔۔ ہے کہاں ایسی عدالت۔۔۔۔کی طرح کچھ ہو۔
خاک کے پتلے کو جو آسماں کی خواہش ہے
یہاں آسماں کا لفظ بھنچ رہا ہے۔ افلاک استعماک کریں یا نشست بہتر کر لیں ۔
 
یہاں صفت کو جگر کے وزن پر لایئے۔شاید یہاں جلد کے وزن پر لائے ہیں ،یہ ضروری ہے۔باقی کچھ معمولی چیزیں ہیں

اب دیکھئے؛

ہر صفت کا تری اس جہاں میں عکس ہوں جب
خواب ہوں میں یا حقیقت، یہ پتہ کرنا ہے

اس شعر میں مضمون لفظوں میں اچھی طرح سمٹ نہیں رہا۔شاید دوبارہ کہہ لیں

اب دیکھئے؛

جب میں بےبس سا ہوں اس نفس کے آگے تو پھر
کس کی کرتا ہوں عبادت، یہ پتہ کرنا ہے

یہاں آسماں کا لفظ بھنچ رہا ہے۔ افلاک استعماک کریں یا نشست بہتر کر لیں ۔

خاک کے پتلے کو افلاک کی جو خواہش ہے
کس نے دی ہے اسے جرات، یہ پتہ کرنا ہے
 

الف عین

لائبریرین
صفت والا شعر اب بحر سے خارج ہو گیا ہے۔
بے بس والا بیانیہ اب بھی رواں نہیں۔
تیسرا شعر بہت بہتر ہو گیا ہے میرے خیال میں
 
صفت والا شعر اب بحر سے خارج ہو گیا ہے۔
بے بس والا بیانیہ اب بھی رواں نہیں۔
تیسرا شعر بہت بہتر ہو گیا ہے میرے خیال میں

اب دیکھئے

تیری ہر ایک صفت کا ہوں میں گر عکس تو پھر
خواب ہوں میں یا حقیقت، یہ پتہ کرنا ہے

نفس کے آگے تُو مجبور ہے اتنا تو پھر
کس کی کرتا ہے عبادت، یہ پتہ کرنا ہے
 
Top