وجاہت حسین الحنفی حافظ
محفلین
السلام علیکم۔ امید ہے کہ آپ سب دوست خیریت سے ہونگے۔
یہ ووسری غزل ہے۔ تمام اساتذہ کرام اور احباب سے گزارش ہے کہ جس طرح پہلے غزل پر تنقید و تبصرے سے رہنمائی کی اسی طرح اس پر بھی اپنی آراء سے نوازیں۔ جزاکم اللہ خیر۔
چراغِ آسماں میں جو برابر آگ جلتی ہے
کسی مہتاب خاتونِ فلک کی چال لگتی ہے
جو پی کر جام عرفاں کے بہک جائے پھسل جائے
اسے لعنت شرابوں کی ہزاروں بارلگتی ہے
جہنم میں پڑا ہے تو یہ واعظ سوچتا ہو گا
کسی بائیں فرشتے کی یہ مجھ کو چال لگتی ہے
بڑے خوش تھے، ملے تھے تم جو آغازِ محبت میں
یہ کیا بیتی؟ کہ اب صورت بڑی ویران لگتی ہے
اسے معلوم ہے انجام الفت کا مگر پھر بھی
وہ میرے ساتھ جلتی ہے، وہ میرے ساتھ لگتی ہے
نگاہوں میں جو بادہ ہے کبھی خیرات ہی کر دو
نظر کے مستحق ہیں ہم ہمیں خیرات لگتی ہے
وہ ناداں باعثِ ذلت ہیں اے حافظ کہ جن کو یہ
زوالِ آدمِ خاکی ذرا سی بات لگتی ہے