خان عرشیہ فردوس منزّہؔ
محفلین
زخمی پھولوں کو گلدان میں سجا رکھا ہے
پاؤں کانٹوں پہ منزل پہ نگاہ رکھا ہے
سر سے پاؤں تک زخمی ہے بدن اسکا
پھر بھی چہرے پہ تبسم کو سجا رکھا ہے
آبلاپائی سے تھکتے نہیں ہے پاؤںمیرے
میں نے منزل کے نگاہوں میں بسا رکھا ہے
اپنے احساس کو لفظوں کی اڑا کر چادر
میں نے ہر درد کو دنیا سے چھپا رکھا ہے
اک چاند ہی کیو ں کرتا ہے کمی پوری اسکی
اتنے تاروں نے بھی تو آسمان کو سجا رکھا ہے
تکیہ کرتی بھی منزہ تو ،توُ کس پر کرتی
ترے ہر رشتہ نے تجھے خود سے جدا رکھا ہے
پاؤں کانٹوں پہ منزل پہ نگاہ رکھا ہے
سر سے پاؤں تک زخمی ہے بدن اسکا
پھر بھی چہرے پہ تبسم کو سجا رکھا ہے
آبلاپائی سے تھکتے نہیں ہے پاؤںمیرے
میں نے منزل کے نگاہوں میں بسا رکھا ہے
اپنے احساس کو لفظوں کی اڑا کر چادر
میں نے ہر درد کو دنیا سے چھپا رکھا ہے
اک چاند ہی کیو ں کرتا ہے کمی پوری اسکی
اتنے تاروں نے بھی تو آسمان کو سجا رکھا ہے
تکیہ کرتی بھی منزہ تو ،توُ کس پر کرتی
ترے ہر رشتہ نے تجھے خود سے جدا رکھا ہے