محمد فائق
محفلین
بے وفا تجھ کو وفادار بتایا نہ گیا
مجھ سے دریا کے کناروں کو ملایا نہ گیا
عمر بھر عمر کو مصرف میں کوئی لا نہ سکا
پھول مجھ سے کوئی صحرا میں کھلایا نہ گیا
ان کی نظروں میں ہوں کافر بس اسی بات پہ میں
ایک پتھر کو خدا مجھ سے بنایا نہ گیا
یوں تو کھائی تھی قسم اس کو بھلا دینے کی
اس کی یادوں کو بھی پر دل سے بھلایا نہ گیا
زخمِ دل اپنے چھپانے کی بہت کی کوشش
سچ کہوں، زخم مگر کوئی چھپایا نہ گیا
پھر بھی ہم نے نہیں چھوڑا کبھی حق کا دامن
کون سا ہے وہ ستم ہم پہ جو ڈھایا نہ گیا
خوب ہوئی کاوشِ اشرارِ زمانہ لیکن
پرچمِ حق و صداقت کو جھکایا نہ گیا
میں نے ہنس ہنس کے اٹھائے ہیں سبھی رنج و الم
ہاں مگر ہجر وہ غم ہے جو اٹھایا نہ گیا
کیا کسی اور سے رشتہ میں نبھاتا فائق
کوئی رشتہ کبھی خود سے تو نبھایا نہ گیا
مجھ سے دریا کے کناروں کو ملایا نہ گیا
عمر بھر عمر کو مصرف میں کوئی لا نہ سکا
پھول مجھ سے کوئی صحرا میں کھلایا نہ گیا
ان کی نظروں میں ہوں کافر بس اسی بات پہ میں
ایک پتھر کو خدا مجھ سے بنایا نہ گیا
یوں تو کھائی تھی قسم اس کو بھلا دینے کی
اس کی یادوں کو بھی پر دل سے بھلایا نہ گیا
زخمِ دل اپنے چھپانے کی بہت کی کوشش
سچ کہوں، زخم مگر کوئی چھپایا نہ گیا
پھر بھی ہم نے نہیں چھوڑا کبھی حق کا دامن
کون سا ہے وہ ستم ہم پہ جو ڈھایا نہ گیا
خوب ہوئی کاوشِ اشرارِ زمانہ لیکن
پرچمِ حق و صداقت کو جھکایا نہ گیا
میں نے ہنس ہنس کے اٹھائے ہیں سبھی رنج و الم
ہاں مگر ہجر وہ غم ہے جو اٹھایا نہ گیا
کیا کسی اور سے رشتہ میں نبھاتا فائق
کوئی رشتہ کبھی خود سے تو نبھایا نہ گیا