غزل برائے اصلاح

عدیل احمد

محفلین
السلام علیکم
بندہ نا چیز پہلی بار آپ احباب کی بارگاہ میں حاضر ہوا ہے دل میں درد ہاتھوں میں قلم اور شاعری سے لگاو ہے اس علم عروض کے راستے پہ ہمارا کوئی ساتھی نہیں اس لئے اگر غلطی پائیں تو درگزر فرمائیں اور اصلاح فرمائیں
یہ رہی ہماری غزل آپ احباب تبصرہ کیجئے اس پہ
غزل
تیرے سہارے کی ابھی ہے حاجت
بس اک اشارے کی ابھی ہے حاجت

ہم تم ملیں گے پھر کسی جگہ پہ
تم سے کنارے کی ابھی ہے حاجت

تم سے ہمیشہ جو ملا دے مجھ کو
ایسے ستارے کی ابھی ہے حاجت

ہم ہیں تمارے اور تم ہمارے
ہم کو ہمارے کی ابھی ہے حاجت

ہے یار میرا جان سے بھی پیارا
ہاں ایسے پیارے کی ابھی ہے حاجت

احمد جو آئے ملنے وہ مجھے اب
ایسے نظارے کی ابھی ہے حاجت
 

عدیل احمد

محفلین
شکریہ بے حد
مجھے اس کی رفتہ رفتہ سمجھ آ رھی ہے اس لیے غلطی معاف فرما دیا کریں

اگر آپ تھوری مدد کر دیں تو؟؟؟؟
 

عدیل احمد

محفلین
زرہ دیکھیے گا ٹھیک ہے یا نہیں اصلاح فرما دیں
غزل
تم نہیں سمجھے مرا غم آج بھی
رو رہے ہیں دیکھ لے ہم آج بھی
پاس میرے آکے اوجھل ہو گئے
ٹوٹتا ہے یہ مرا دم آج بھی
ہے پرانا درد بھی جو کیسے مٹے
ہو نہیں پایا ہے یہ کم آج بھی
جو ستم کرتے رہے ہنس کر سہا
سلسلہ جاتا نہیں تھام آج بھی
تم کہاں سمجھو گے حالے دل صنم
جان دل کی آنکھ ہے نم آج بھی
چل کہیں اب دور احمد ہم چلیں
تک رہا ہے ایک عالم آج بھی
 
شکریہ بے حد
مجھے اس کی رفتہ رفتہ سمجھ آ رھی ہے اس لیے غلطی معاف فرما دیا کریں

اگر آپ تھوری مدد کر دیں تو؟؟؟؟
کوشش کریں کہ ہر غزل الگ لڑی میں پوسٹ کریں۔ اور ایک دفعہ پوسٹ کرنے کے بعد اساتذہ کی رائے کا انتظار کیجیے۔
 

عدیل احمد

محفلین
جی بہت شکریہ مگر الگ لڑی میں کیسے ارسال کروں کچھ رہنمائی فرما دیں
اور بلکل اساتذہ کو ضرور ٹیگ کیجیے مجھے ان کی بہت حاجت ہے
 
جی بہت شکریہ مگر الگ لڑی میں کیسے ارسال کروں کچھ رہنمائی فرما دیں
اور بلکل اساتذہ کو ضرور ٹیگ کیجیے مجھے ان کی بہت حاجت ہے
جیسے آپ نے اصلاح کی ایک اور پوسٹ بنائی ہے۔
اسی طرح۔

ایک پوسٹ میں ایک ہی غزل کی اصلاح لیں۔ ورنہ اساتذہ کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
پہلی غزل کو تو عروض کی بھی حاجت ہے، کچھ مصرع ضرور غیر مستعمل بحر میں ہیں۔ بہر حال اس غزل کو میں نا قابل اصلاح اور بطور مشق سمجھ کر چھوڑ دیتا ہوں۔
دوسری غزل درست بحر میں ہے۔فاعلاتن فاعلاتن فاعلن

تم نہیں سمجھے مرا غم آج بھی
رو رہے ہیں دیکھ لے ہم آج بھی
÷÷÷دونوں مصرعے بے ربط ہیں۔ دوسرے میں ’آج بھی‘ کی معنویت نظر نہیں آتی۔
ایک اور غلطی ہے۔ ضمیریں دونوں میں الگ الگ ہیں۔ پہلے مصرع میں ’تم‘ لیکن دوسرے میں ’لے‘ یعنی ’تو‘ کی ضمیر ہے۔

پاس میرے آکے اوجھل ہو گئے
ٹوٹتا ہے یہ مرا دم آج بھی
÷÷÷یہ بھی بے ربط ہیں۔

ہے پرانا درد بھی جو کیسے مٹے
ہو نہیں پایا ہے یہ کم آج بھی
÷÷÷پہلا مصرع وزن میں نہیں۔
یہ پرانا درد ہے، کیسے مٹے
درست ہو سکتا ہے۔

جو ستم کرتے رہے ہنس کر سہا
سلسلہ جاتا نہیں تھام (تھم)آج بھی
÷÷÷بے ربط ہیں۔ سلسلہ تھم نہیں جاتا درست محاورہ نہیں۔ ’نہیں تھمتا‘ درست ہے،

تم کہاں سمجھو گے حالے دل صنم
جان دل کی آنکھ ہے نم آج بھی
÷÷÷جان و دل کی آنکھ؟

چل کہیں اب دور احمد ہم چلیں
تک رہا ہے ایک عالم آج بھی
÷÷÷عالم کیوں تک رہا ہے؟ سسمجھ میں نہیں آیا۔
مجموعی طور پر:
اس غزل میں وزن کے مسائل نہیں، صرف ایک مصرع بے وزن ہے۔ لیکن اصل خامی یہ ہے کہ اکثر لگتا ہے کہ بس دو مصرع جمع کر کے شعر بنا دیا گیا ہے۔ تخیل کی نزاکت محسوس نہیں ہوتی۔
 
Top