محمد فائق
محفلین
پھول کا گرچہ نہ بن، کانٹوں کا بن
میرا گر بنتا نہیں غیروں کا بن
جگنوؤں میں کم چمک ہے، ٹھیک ہے
اے مری جاں کم سے کم تاروں کا بن
پیروی ہوتی نہیں یاں عقل کی
راہی تو ہرگز نہ ان راہوں کا بن
کار گر پھر ہوگی یہ چارہ گری
پہلے تو ہمدرد بیماروں کا بن
زندگی خود ہی سمجھ آجائے گی
بس شناسا گرتی دیواروں کا بن
خاکساری کا بھی تھوڑا لطف لے
ہم نشیں ہم خانہ بربادوں کا بن
جا یہاں سے یہ کوئی بستی نہیں
اے مسافر یہ ہے بیگانوں کا بن
تو سدا ہوگا نہیں کرسی نشیں
شر پسندی چھوڑ انسانوں کا بن
تجھ کو عزت چاہیے بھی یا نہیں
معتقد فائق ذرا روپیوں کا بن
میرا گر بنتا نہیں غیروں کا بن
جگنوؤں میں کم چمک ہے، ٹھیک ہے
اے مری جاں کم سے کم تاروں کا بن
پیروی ہوتی نہیں یاں عقل کی
راہی تو ہرگز نہ ان راہوں کا بن
کار گر پھر ہوگی یہ چارہ گری
پہلے تو ہمدرد بیماروں کا بن
زندگی خود ہی سمجھ آجائے گی
بس شناسا گرتی دیواروں کا بن
خاکساری کا بھی تھوڑا لطف لے
ہم نشیں ہم خانہ بربادوں کا بن
جا یہاں سے یہ کوئی بستی نہیں
اے مسافر یہ ہے بیگانوں کا بن
تو سدا ہوگا نہیں کرسی نشیں
شر پسندی چھوڑ انسانوں کا بن
تجھ کو عزت چاہیے بھی یا نہیں
معتقد فائق ذرا روپیوں کا بن