غزل برائے اصلاح

محمد فائق

محفلین
پھول کا گرچہ نہ بن، کانٹوں کا بن
میرا گر بنتا نہیں غیروں کا بن

جگنوؤں میں کم چمک ہے، ٹھیک ہے
اے مری جاں کم سے کم تاروں کا بن

پیروی ہوتی نہیں یاں عقل کی
راہی تو ہرگز نہ ان راہوں کا بن

کار گر پھر ہوگی یہ چارہ گری
پہلے تو ہمدرد بیماروں کا بن

زندگی خود ہی سمجھ آجائے گی
بس شناسا گرتی دیواروں کا بن

خاکساری کا بھی تھوڑا لطف لے
ہم نشیں ہم خانہ بربادوں کا بن

جا یہاں سے یہ کوئی بستی نہیں
اے مسافر یہ ہے بیگانوں کا بن

تو سدا ہوگا نہیں کرسی نشیں
شر پسندی چھوڑ انسانوں کا بن

تجھ کو عزت چاہیے بھی یا نہیں
معتقد فائق ذرا روپیوں کا بن
 

الف عین

لائبریرین
پھول کا گرچہ نہ بن، کانٹوں کا بن
میرا گر بنتا نہیں غیروں کا بن
÷÷گرچہ کا فعلن کے طور پر استعمال درست نہیں۔

جگنوؤں میں کم چمک ہے، ٹھیک ہے
اے مری جاں کم سے کم تاروں کا بن
÷÷شعر واضح نہیں۔ جگنوؤں یا تاروں کا یا چاند سورج کا کوئی کیونکر بن سکتا ہے؟
مری جاں، اگر محبوبہ سے خطاب ہے تو "کا بن‘ نہیں، ‘کی بن‘ ہونا تھا۔ ورنہ ’یار‘ استعمال کرو،

پیروی ہوتی نہیں یاں عقل کی
راہی تو ہرگز نہ ان راہوں کا بن
۔۔راہی کا محض راہِ تقطیع ہونا اچھا نہیں۔

کار گر پھر ہوگی یہ چارہ گری
پہلے تو ہمدرد بیماروں کا بن
۔۔درست، بلکہ خوب

زندگی خود ہی سمجھ آجائے گی
بس شناسا گرتی دیواروں کا بن
۔۔یہ بھی اچھا ہے۔

خاکساری کا بھی تھوڑا لطف لے
ہم نشیں ہم خانہ بربادوں کا بن
۔۔یہ بھی درست اور خوب

جا یہاں سے یہ کوئی بستی نہیں
اے مسافر یہ ہے بیگانوں کا بن

تو سدا ہوگا نہیں کرسی نشیں
شر پسندی چھوڑ انسانوں کا بن
÷÷بالا دونوں اشعار بھی درست

تجھ کو عزت چاہیے بھی یا نہیں
معتقد فائق ذرا روپیوں کا بن
’ذرا روپیوں‘ میں ’ر‘ کی تکرار کانوں کو نا گوار ہے۔ پہلے مصرع کا بھی بیانیہ روانی چاہتا ہے
 

محمد فائق

محفلین
رہنمائی کا شکریہ سر کیا اب غزل درست ہے؟

پھول کا بالکل نہ بن کانٹوں کا بن
میرا گر بنتا نہیں غیروں کا بن

کار گر پھر ہوگی یہ چارہ گری
پہلے تو ہمدرد بیماروں کا بن

زندگی خود ہی سمجھ آجائے گی
بس شناسا گرتی دیواروں کا بن

خاکساری کا بھی تھوڑا لطف لے
ہم نشیں ہم خانہ بربادوں کا بن

جا یہاں سے یہ کوئی بستی نہیں
اے مسافر یہ ہے بیگانوں کا بن

تو سدا ہوگا نہیں کرسی نشیں
شر پسندی چھوڑ، انسانوں کا بن

کیا تجھے عزت نہیں درکار ہے
معتقد فائق ذرا پیسوں کا بن
 
Top