غزل برائے اِصلاح و تنقید

شہنواز نور

محفلین
السلام علیکم ۔۔۔۔محفلین ایک غزل پیش ہے اساتذہ سے اصلاح کی گزارش ہے سپاس گزار رہوں گا ۔۔۔۔
ہے عشق نام اسی کا سزا تو دیگا ہی
ترا خیال جو آیا رلا تو دیگا ہی
ترے غرور کو اک روز ٹوٹ جانا ہے
لگے گا وقت تجھے دل بھلا تو دیگا ہی
خدا کرے کہ تجھے بھی کوئ فریب ملے
یہ بد دعا سہی دل کا جلا تو دیگا ہی
کروں یقین بھی کیسے ذرا بتا مجھ کو
تِرا ہی خون ہے آخِر دغا تو دیگا ہی
فقط غریب ہے تو سب امیر زادے ہیں
نظر سے آدمی تجھ کو گرا تو دیگا ہی
ترے نصیب کا تارا ضرور چمکے گا
دعائیں مانگ تجھے بھی خدا تو دیگا ہی
اسی کے ہاتھ میں انصاف کا ترازو ہے
خطا کرو نہ کرو تم سزا تو دیگا ہی
خدا سے مانگ رہا ہوں تجھے دعا میں اب
اگر نصیب میں ہوگا ملا تو دیگا ہی
اسے خبر ہے یہاں کس میں نور کتنا ہے
چراغ جس نے جلایا بجھا تو دیگا ہی
 
اساتذہ کا کام اصلاح کا ہے میں تو ایک دوست کی حیثیت سے کہہ رہا ہوں کہ ردیف کئی جگہ مضمون کا ساتھ نہیں دے پائی۔ مطلع کو ہی دیکھ لیں ۔ دے گا ہی ۔۔۔ وہ روانی اور سلاست نہیں دے پایا جس کا شعر مستحق تھا ۔ آپ غور کریں تو اور جگہ بھی مضمون درست کر سکتے ہیں یا اگر بارِ خاطر نہ ہو تو ردیف بدل دیں
شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
ردیف بدلنے کی ضرورت نہیں میرے خیال میں۔ البتہ عزیزی کاشف کی یہ بات درست ہے کہ کہیں کہیں ردیف خیال کا ساتھ نہیں دے رہی، بلکہ اکثر خیال ہی شعر کا ساتھ نہیں دے رہا۔ جیات
ترے غرور کو اک روز ٹوٹ جانا ہے
لگے گا وقت تجھے دل بھلا تو دیگا ہی
دونوں مصرعوں کا تعلق واضح نہیں۔

کروں یقین بھی کیسے ذرا بتا مجھ کو
تِرا ہی خون ہے آخِر دغا تو دیگا ہی
÷÷÷سمجھ میں نہیں آ سکا

فقط غریب ہے تو سب امیر زادے ہیں
نظر سے آدمی تجھ کو گرا تو دیگا ہی
÷÷÷؟؟؟
 

شہنواز نور

محفلین
بہت شکریہ سر میں کوشش کرتا ہوں اپنے کلام کو اور بہتر لکھ سکوں ۔۔۔۔ممنون ہوں آپ کی رہنمائی کے لئے
 
Top