شہنواز نور
محفلین
السلام علیکم ۔۔۔۔محفلین ایک غزل پیش ہے اساتذہ سے اصلاح کی گزارش ہے سپاس گزار رہوں گا ۔۔۔۔
ہے عشق نام اسی کا سزا تو دیگا ہی
ترا خیال جو آیا رلا تو دیگا ہی
ترے غرور کو اک روز ٹوٹ جانا ہے
لگے گا وقت تجھے دل بھلا تو دیگا ہی
خدا کرے کہ تجھے بھی کوئ فریب ملے
یہ بد دعا سہی دل کا جلا تو دیگا ہی
کروں یقین بھی کیسے ذرا بتا مجھ کو
تِرا ہی خون ہے آخِر دغا تو دیگا ہی
فقط غریب ہے تو سب امیر زادے ہیں
نظر سے آدمی تجھ کو گرا تو دیگا ہی
ترے نصیب کا تارا ضرور چمکے گا
دعائیں مانگ تجھے بھی خدا تو دیگا ہی
اسی کے ہاتھ میں انصاف کا ترازو ہے
خطا کرو نہ کرو تم سزا تو دیگا ہی
خدا سے مانگ رہا ہوں تجھے دعا میں اب
اگر نصیب میں ہوگا ملا تو دیگا ہی
اسے خبر ہے یہاں کس میں نور کتنا ہے
چراغ جس نے جلایا بجھا تو دیگا ہی
ہے عشق نام اسی کا سزا تو دیگا ہی
ترا خیال جو آیا رلا تو دیگا ہی
ترے غرور کو اک روز ٹوٹ جانا ہے
لگے گا وقت تجھے دل بھلا تو دیگا ہی
خدا کرے کہ تجھے بھی کوئ فریب ملے
یہ بد دعا سہی دل کا جلا تو دیگا ہی
کروں یقین بھی کیسے ذرا بتا مجھ کو
تِرا ہی خون ہے آخِر دغا تو دیگا ہی
فقط غریب ہے تو سب امیر زادے ہیں
نظر سے آدمی تجھ کو گرا تو دیگا ہی
ترے نصیب کا تارا ضرور چمکے گا
دعائیں مانگ تجھے بھی خدا تو دیگا ہی
اسی کے ہاتھ میں انصاف کا ترازو ہے
خطا کرو نہ کرو تم سزا تو دیگا ہی
خدا سے مانگ رہا ہوں تجھے دعا میں اب
اگر نصیب میں ہوگا ملا تو دیگا ہی
اسے خبر ہے یہاں کس میں نور کتنا ہے
چراغ جس نے جلایا بجھا تو دیگا ہی