غزل برائے تنقید و اصلاح "ابھی الفاظ میں جذبوں کی چبھن باقی ہے"

ابھی الفاظ میں جذبوں کی چبھن باقی ہے
یعنی تفہیم کی بستی میں سخن باقی ہے

گل تو مرجھا گئے عنوانِ چمن باقی ہے

اسکے بھیجے ہوئے تحفوں میں کفن باقی ہے

چھوڑ جاؤ گے تو جاؤ ہمیں حاجت بھی نہیں
ابھی دنیا میں پری خانہِ زن باقی ہے

سرحدِ تاشہِ تسکین تک آتی ہی نہیں
ایک خواہش جو میانِ تن و من باقی ہے

یہ اشارہ ہے، وضاحت نہیں کر پاؤں گا
خواہشِ لذتِ ابدالِ بدن باقی ہے

ہم تو سمجھے تھے کہ آزار سے آزاد ہوئے
وقتِ تدفین کھلا نقشِ محن باقی ہے

جو محبت کے جھکڑنے سے بنا ہے آسی
آج بھی روح پہ وہ نقشِ رسن باقی ہے

محمد ارتضیٰ آسی
 
اس غزل میں حضور مجھے الفاظ کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا!
وزن تو ٹھیک ہے، محن قافیہ نہیں ہو سکتا، کہ مُحِن ہے۔ یعنی کسرہ ہے حرف روی پر!
تقریباً اشعار دو لخت ہیں!
 
جناب۔
ہم نے (محن) بابِ افتعال سے استعمال کیا ہے
آپ کی شنوائی سے شاید یہ الفاظ ٹکرائے ہوں (رنج و محن)
اسی ضمن میں پرکھیں۔۔۔
 
آخری تدوین:
حجازِ محترم!
بات یہ ہے کہ غزل کا وجود الفاظ کا محتاج ہے۔
البتہ معنی کا تعلق رشتوں سے ہے اور واقفیت شرط ہے
باقی آپ استاد بھی اور قبلہ بھی
 
آخری تدوین:
Top