محمدارتضیٰ آسی
محفلین
رات ہے اور خمار باقی ہے
شدّتِ انتظار باقی ہے
بال اُلجھے ہوئے سے رہتے ہیں
نشّہِ زلفِ یار باقی ہے
"مرگئے ہیں خدا سبھی" لیکن
خوئے شب زندہ دار باقی ہے
مقتلِ عشق ہوگیا ویراں
پھر بھی اک شہسوار باقی ہے
آج کی رات روئے کافر پر
اک انوکھا نکھار باقی ہے
بزم، ساقی، شراب کچھ نہ رہا
پھر بھی اک بادہ خوار باقی ہے
منزلیں مٹ گئی ہیں آسی کی
خواہشوں کا غبار باقی ہے
محمد ارتضیٰ آسی
شدّتِ انتظار باقی ہے
بال اُلجھے ہوئے سے رہتے ہیں
نشّہِ زلفِ یار باقی ہے
"مرگئے ہیں خدا سبھی" لیکن
خوئے شب زندہ دار باقی ہے
مقتلِ عشق ہوگیا ویراں
پھر بھی اک شہسوار باقی ہے
آج کی رات روئے کافر پر
اک انوکھا نکھار باقی ہے
بزم، ساقی، شراب کچھ نہ رہا
پھر بھی اک بادہ خوار باقی ہے
منزلیں مٹ گئی ہیں آسی کی
خواہشوں کا غبار باقی ہے
محمد ارتضیٰ آسی