محمد امجد نذیر الہ آبادی
محفلین
اپنی یادوں کو یہیں آگ لگاتے جاتے
یہ چڑھاوا شبِ فرقت پہ چڑھاتے جاتے
وہ جو آئے تھے بچانے مجھے خود ڈوب گئے
کاش کشتی کو کنارے سے لگاتے جاتے!
اشک آنکھوں میں چھپانے نہیں آتے مجھ کو
ورنہ خوش ہے کے میں ملتا تمھیں آتے جاتے
فاتحہ کے نہیں قائل تو کوئی بات نہیں
اک دیا ہی مرے مدفن پہ جلاتے جاتے
اپنے رستے میں انا کی ہے رکاوٹ صاحب!
ورنہ پلکوں کو تری راہ میں بچھاتے جاتے
شبِ ظلمت کی سیاہی کا مداوا ہوتا
گر سبھی لوگ نئی شمع جلاتے جاتے
یہ چڑھاوا شبِ فرقت پہ چڑھاتے جاتے
وہ جو آئے تھے بچانے مجھے خود ڈوب گئے
کاش کشتی کو کنارے سے لگاتے جاتے!
اشک آنکھوں میں چھپانے نہیں آتے مجھ کو
ورنہ خوش ہے کے میں ملتا تمھیں آتے جاتے
فاتحہ کے نہیں قائل تو کوئی بات نہیں
اک دیا ہی مرے مدفن پہ جلاتے جاتے
اپنے رستے میں انا کی ہے رکاوٹ صاحب!
ورنہ پلکوں کو تری راہ میں بچھاتے جاتے
شبِ ظلمت کی سیاہی کا مداوا ہوتا
گر سبھی لوگ نئی شمع جلاتے جاتے