واضح کرنے کا شکریہ جناب کیا ہم ناصر کاظمی کی طرح قوافی کا استعمال کر سکتے ہین جیسے کہ انھوں نے اس غزل میں کیا
ہنستے گاتے روتے پھول
جی میں ہیں کیسے کیسے پھول
اور بہت کیا کرنے ہیں
کافی ہیں یہ تھوڑے پھول
وقت کی پھلواری میں نہیں
دامن میں ہیں ایسے پھول
اس دھرتی کی رونق ہیں
میرے کانٹے تیرے پھول
کسیے اندھے ہیں وہ ہاتھ
جن ہاتھوں نے توڑے پھول
اُن پیاسوں پر میرا سلام
جن کی خاک سے نکلے پھول
ایک ہری کونپل کے لیے
میں نےچھوڑے کتنے پھول
اونچے اونچے لمبے پیڑ
سادے پتے پیلے پھول
مٹی ہی سے نکلے تھے
مٹی ہو گئے سارے پھول
مٹی کی خوشبو لینے
نیل گگن سے اترے پھول
چادر اوڑھ کے شبنم کی
نکلے آنکھوں ملتے پھول
شام ہوئی اب گلیوں میں
دیکھو چلتے پھرتے پھول
سونا جسم سفید قمیص
گورے ہاتھ سنہرے پھول
کچی عمریں کچے رنگ
ہنس مکھ بھولے بھالے پھول
آنکھ آنکھ میں بھیگی نیند
ہونٹ ہونٹ سے جھڑتے پھول
گورے گورے ننگے پیر
جھلمل جھلمل کرتے پھول
جیسا بدن ویسا ہی لباس
جیسی مٹی ویسے پھول
مہک اٹھی پھر دل کی کتاب
یاد آئے یہ کب کے پھول
شام کے تارے تو ہی بتا
آج کدھر سے گزرے پھول
کانٹے چھوڑ گئی آندھی
لے گئی اچھے اچھے پھول
دھیان میں پھرتے ہیں ناصر
اچھی آنکھوں والے پھول
ناصر کاظمی ہوں یا کوئی بھی شاعر جو رعایت ایک کے لیے وہی سب کے لیے ہے۔
ایسا مطلع جس کے پہلے مصرع کے قوافی میں اصلی روی لائیں اور دوسرے میں غیر اصلی تو دیگر اشعار میں پھر اجازت ہے کہ چاہے اصلی روی لائیں یا غیر اصلی۔ جیسے کہ
ہنستے گاتے روتے پھول
جی میں ہیں کیسے کیسے پھول
روتا میں اصل لفظ رو ہے لیکن تا کا الف بطور روی اختیار کیا گیا ہے جو کہ غیر اصلی ہے
تاہم دوسرے مصرع میں کیسے کی ے کہ مقابل لایا گیا ہے جس کی ے اصلی روی شمار کی گئی ہے۔ اب اگلے ابیات میں تیرے اچھے کرتے جھڑتے درست قوافی ہیں یہ الگ بات ہے کہ کرتے ، پھرتے ، ملتے وغیرہ میں ایطا کا عیب ہے۔ اب ہے تو ہے کیا کِیا جاسکتا ہے