السلام علیکم
جیسا کہ محترم الف عین نے فرمایا آپ کے ان اشعار میں واقعی ابہام پایا جاتا ہے-ایسے میں اصلاح و تنقید کچھ مشکل ہوتی ہے اور بعض اوقات کوئی متبادل تجویز از سر نو شعر کہنے کے مترادف ہوجاتی ہے -چونکہ آپ کو اصلاح و تنقید سے عار نہیں لہذا اچھی شاعری آپ کے لئے کچھ دشوار نہیں -
یہ بھی فیضِ رہِ محبت ہے
دل کی صحراوں جیسی صورت ہے
واہ -یہ شعر گو اپنے مطلب میں صاف ہے تاہم مصرعوں کی ترتیب بدلنے سے اور واضح ہوجاتا ہے :
دل کی صحراؤں جیسی صورت ہے
یہ بھی فیضِ رہِ محبت ہے
جملہ معترضہ کے طور پہ ایک بات کہوں اگر آپ کو اعتراض نہ ہو :
غالب نے کہا تھا :
عشق نے غالب نکمّا کر دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
ایک اللہ والے بزرگ مولانا محمد احمد علیھم الرحمہ نے اسے یوں بدل دیا :
عشق نے
احمد مجلّٰی کر دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے
نام کے
دیکھئے نکتۂ نظر کا فرق ایک جگہ عشقِ مجازی بیان ہو رہا ہے ایک جگہ عشقِ حقیقی -چہ نسبت خاک را با عالم پاک
دل اگر واقعی نہیں زندہ
پھر بھلا ساتھ کیوں یہ چاہت ہے
ابہام کو یوں رفع کر دیں :
دل اگر واقعی نہیں زندہ
ہوتی پیدا کہاں سے چاہت ہے
یہ اثر ہے گھٹن نے دکھلایا
بادِ باراں کی کیا حقیقت ہے
آپ غالباً کہنا چاہتی ہیں :
یہ بھی دراصل ہے گھٹن کا اثر
باد و باراں کی کیا حقیقت ہے
"یہ بھی" سے اپنے رونے کی طرف اشارہ ہو گیا -فصیح ترکیب "باد و باراں" ہے جیسا کہ میر نے کہا:
چلتے ہو تو چمن کو چلیے کہتے ہیں کہ بہاراں ہے
پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم باد و باراں ہے
اے مرے وقت یوں نہ یاد مٹا
دل کو دھڑکن کی بھی ضرورت ہے
اے مرے دل اسے کبھی نہ بھلا
تجھے دھڑکن کی بھی ضرورت ہے
کم ہی بولیں، کسی سے کم ملیے
یہ بھی ردِ بلائے الفت ہے
یہ خلافِ واقعہ ہے -کم ملنے میں اگر آپ شہر کے حسین ترین سے مل لیں پھر چپ تو لگ جانی ہے اور ابتلائے الفت کا بھی قوی امکان -لہٰذا میں تو یوں کہتا :
یہ نگاہوں کی جو حفاظت ہے
یہ بھی ردِ بلائے الفت ہے
اب کہ دورانِ حال ہستی چلو
غم صدف راحتوں کی سیرت ہے
یہ گیند تو سر کے بہت اوپر سے گزری ہے
-معذرت