ایک خدا کی بات سے دوسرا خدا کیسے غیر متفق ہو سکتا ہے۔۔۔
صد فیصد متفق
میر نے سودا کے کئی اشعار کے مضامین من و عن چرائے ہیں لیکن نقاد ایک خدا کی چوریوں پر بات نہیں کرتے۔
بجا فرمایا ذل الہی...
ایک نمونہ حاضر
ادب دیا ہے ہاتھ سے اپنے کبھو بھلا مے خانے کا
کیسے ہی ہم مست چلے پر سجدہ ہر اک گام کیا
سودا
سرزد ہم سے بےادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی
کوسوں اس کی اور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کیا
میر
فخر نہیں اے شیخ مجھے کچھ دین میں تیرے آنے کا
راہب نے جب منہ نہ لگایا تب میں قبولِ اسلام کیا
سودا
میر کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو اُن نے تو
قشقہ کھینچا، دیر میں بیٹھا، کب کا ترک اسلام کیا
میر
تھا یہ جوانی فکر و تردد، بعد از پیری پایا چین
رات تو کاٹی دکھ سکھ ہی میں، صبح ہوئی آرام کیا
سودا
عہدِ جوانی رو رو کاٹا، پیری میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے ، صبح ہوئی آرام کیا
میر
پہلا اور آخری شعر تو خصوصاً اور مکمل طور پر ایک ہی مضمون میں ہے .
اور بھی بہت مثالیں ہیں.
مگر ناقدین نے ان پر پردہ ڈالنے کے لئے بہت سے فضول فلسفے نکال ڈالے ہیں.