غزل بغرضِ اصلاح/ رند بے آبرو ہوجائیں گے میخانے میں

اویس رضا

محفلین
استادِ محترم سر الف عین و دیگر احباب سے گزارش ہے کہ برائے مہربانی اصلاح فرمائیں

نہیں ملتا کسی بستی کسی ویرانے میں
سکوں ملتا ہے جو ساقی ترے میخانے میں

چھوڑ کر جائیں اگر دل ترے کاشانے میں
کیا ملے گا ہمیں کعبے میں صنم خانے میں

چھیڑنا مت کسی دیوانے کو انجانے میں
شہر کا شہر بدل دے گا وہ ویرانے میں

ایسا دیکھا نہ سنا تھا کسی افسانے میں
رند بے آبرو ہو جائیں گے میخانے میں

عمر بھر جو نہیں آئے کھبی ملنے مجھ سے
آج کیا وہ بھی ہیں شامل مجھے دفنانے میں

دیکھ لے ایسے محبت بھی تو رسوا ہو گی
ہو کے بے آبرو یوں میرے چلے جانے میں

حضرتِ شیخ نے آنے کا کیا ہے وعدہ
ساقیا آج چراغاں کرو مے خانے میں

جس کو جاں سمجھے تھے ہم دشمنِ جاں نکلا ہے
فرق کر پائے نہ ہم؛ اپنے میں؛ بیگانے میں

چوٹ کھائی ہے ابھی درد سے لاچار ہیں ہم
وقت لگ جائے گا کچھ ہم کو سنبھل جانے میں

دیکھ آزادی تو فطرت ہے ہماری ہم تو
قید ہوسکتے نہیں ہیں کسی تہ خانے میں
 
برادرم اویسؔ صاحب، آداب!

نہیں ملتا کسی بستی کسی ویرانے میں
سکوں ملتا ہے جو ساقی ترے میخانے میں
ایک ہی مصرعے میں اتنے زیادہ حروف کا اسقاط اچھا نہیں ہوتا
نہیں میں ی ساقط ہے، کسی کی ی دونوں مقامات پر ساقط ہے۔
دوسرے مصرعے میں سکوں کی و، ہے کی ی، جو کی و، ترے کی ے ۔۔۔ سب ساقط ہیں۔
اس طرح روانی میں بہت خلل پیدا ہوتا ہے۔

چھوڑ کر جائیں اگر دل ترے کاشانے میں
کیا ملے گا ہمیں کعبے میں صنم خانے میں
کعبے اور صنم خانے کا اجماع مبہم ہے۔

چھیڑنا مت کسی دیوانے کو انجانے میں
شہر کا شہر بدل دے گا وہ ویرانے میں
وہ اور ویرانے کا تنافر بہت واضح طور پر محسوس ہو رہا ہے۔

چوٹ کھائی ہے ابھی درد سے لاچار ہیں ہم
وقت لگ جائے گا کچھ ہم کو سنبھل جانے میں
محاورتاً ’’ہم کو سنبھلنے میں‘‘ درست ہوگا۔ قافیہ کی بندش کے سبب شاید ’’سنبھل جانے میں‘‘ چل جائے، استادِ محترم بہتر بتا سکتے ہیں۔

دیکھ آزادی تو فطرت ہے ہماری ہم تو
قید ہوسکتے نہیں ہیں کسی تہ خانے میں
تو کی تکرار سے اس کے حشو ہونے تاثر ابھرتا ہے۔ مزید یہ کہ پہلے مصرعے میں دیکھ بھی زائد ہے، ’’تُو‘‘ (بطور ضمیر) کے بغیر بھرتی کا لگ رہا ہے۔
دوسرے مصرعے میں ’’ہیں‘‘ بھی زائد ہے، صرف وزن پورا کرنے کے لئے۔

متبادل دانستہ نہیں تجویز کئے کہ آپ میں صلاحیت نظر آتی ہے کہ ان نکات کی روشنی میں خود ہی مشق کرسکتے ہیں۔

کوئی بات بری محسوس ہوئی ہو تو معذرت۔

دعاگو،
راحلؔ۔
 

اویس رضا

محفلین
جی راحل بھائی بہت شکریہ آپ کا مشورہ دینے کیلئے
استادِ محترم کی رائے کا انتظار ہے
اس کے بعد کوشش کروں گا
 

الف عین

لائبریرین
متفق راحل سے۔
مطلع میں
جو سکوں ملتا ہے.... بہتر رواں مصرع تھا۔ نہ جانے کیوں سکوں کو پہلے کایا گیا؟
قافیے کی مجبوری کے باعث سنبھل جانے میں قبول کیا جا سکتا ہے
 

اویس رضا

محفلین
سر کیا اب یہ عزل ٹھیک ہو گئی
الف عین

وہ نہ بستی میں ملے ہے نہ ہی ویرانے میں
جو سکوں ملتا ہے ساقی ترے میخانے میں

چھیڑنا مت کسی دیوانے کو انجانے میں
شہر کا شہر بدل سکتا ہے ویرانے میں

ایسا دیکھا نہ سنا تھا کسی افسانے میں
رند بے آبرو ہوجائیں گے، میخانے میں

عمر بھر جو نہیں آئے کبھی ملنے مجھ سے
آج کیا وہ بھی ہیں شامل مجھے دفنانے میں

دیکھ لے ایسے محبت بھی تو رسوا ہو گی
ہو کے بے آبرو یوں میرے چلے جانے میں

حضرتِ شیخ نے آنے کا کیا ہے وعدہ
ساقیا آج چراغاں کرو مے خانے میں

جس کو جاں سمجھے تھے ہم دشمنِ جاں نکلا ہے
فرق کر پائے نہ ہم؛ اپنے میں؛ بیگانے میں

چوٹ کھائی ہے ابھی درد سے لاچار ہیں ہم
وقت لگ جائے گا کچھ ہم کو سنبھل جانے میں
 
مدیر کی آخری تدوین:
سر کیا اب یہ عزل ٹھیک ہو گئی
الف عین

وہ نہ بستی میں ملے ہے نہ ہی ویرانے میں
جو سکوں ملتا ہے ساقی ترے میخانے میں

چھیڑنا مت کسی دیوانے کو انجانے میں
شہر کا شہر بدل سکتا ہے ویرانے میں

ایسا دیکھا نہ سنا تھا کسی افسانے میں
رند بے آبرو ہوجائیں گے، میخانے میں

عمر بھر جو نہیں آئے کبھی ملنے مجھ سے
آج کیا وہ بھی ہیں شامل مجھے دفنانے میں

دیکھ لے ایسے محبت بھی تو رسوا ہو گی
ہو کے بے آبرو یوں میرے چلے جانے میں

حضرتِ شیخ نے آنے کا کیا ہے وعدہ
ساقیا آج چراغاں کرو مے خانے میں

جس کو جاں سمجھے تھے ہم دشمنِ جاں نکلا ہے
فرق کر پائے نہ ہم؛ اپنے میں؛ بیگانے میں

چوٹ کھائی ہے ابھی درد سے لاچار ہیں ہم
وقت لگ جائے گا کچھ ہم کو سنبھل جانے میں
تصحیح کے بعد کیسی ہوگئی غزل یہ تو احسن بھائی دیکھ ہی رہے ہیں لیکن صاحب غضب کا ترنم اور اوریجنیلیٹی ہے اس غزل میں۔ بہت سی داد
 

الف عین

لائبریرین
سر کیا اب یہ عزل ٹھیک ہو گئی
الف عین

وہ نہ بستی میں ملے ہے نہ ہی ویرانے میں
جو سکوں ملتا ہے ساقی ترے میخانے میں

چھیڑنا مت کسی دیوانے کو انجانے میں
شہر کا شہر بدل سکتا ہے ویرانے میں

ایسا دیکھا نہ سنا تھا کسی افسانے میں
رند بے آبرو ہوجائیں گے، میخانے میں

عمر بھر جو نہیں آئے کبھی ملنے مجھ سے
آج کیا وہ بھی ہیں شامل مجھے دفنانے میں

دیکھ لے ایسے محبت بھی تو رسوا ہو گی
ہو کے بے آبرو یوں میرے چلے جانے میں

حضرتِ شیخ نے آنے کا کیا ہے وعدہ
ساقیا آج چراغاں کرو مے خانے میں

جس کو جاں سمجھے تھے ہم دشمنِ جاں نکلا ہے
فرق کر پائے نہ ہم؛ اپنے میں؛ بیگانے میں

چوٹ کھائی ہے ابھی درد سے لاچار ہیں ہم
وقت لگ جائے گا کچھ ہم کو سنبھل جانے میں
درست ہے غزل
 
برادرم اویسؔ، آداب!

ایک نکتہ، مستقبل کے لئے بھی، ذہن میں رکھئے گا۔ عربی اور فارسی الاصل الفاظ کے حروف ہائے علت کا اسقاط اردو شاعری میں اگر ’’حرام‘‘ نہ بھی ہو تو ’’مکروہ‘‘ کے درجے میں ضرور داخل ہے۔
گو کہ مجھ سے خود بھی کبھی کبھار قصداً یا نادانستہ اس مکروہ کا صدور ہو جاتا ہے ۔۔۔ مگر بہرحال اس سے جتنا اجتناب کیا جائے، بہتر ہے۔

دعاگو،
راحلؔ
 
آخری تدوین:

اویس رضا

محفلین
برادرم اویسؔ، آداب!

ایک نکتہ، مستقبل کے لئے بھی، ذہن میں رکھئے گا۔ عربی اور فارسی الاصل الفاظ کے حروف ہائے علت کا اسقاط اردو شاعری میں اگر ’’حرام‘‘ نہ بھی ہو تو ’’مکروہ‘‘ کے درجے میں ضرور داخل ہے۔
گو کہ مجھ سے خود بھی کبھی کبھار قصداً یا نادانستہ اس مکروہ کا صدور ہو جاتا ہے ۔۔۔ مگر بہرحال اس سے جتنا اجتناب کیا جائے، بہتری ہے۔

دعاگو،
راحلؔ
جی راحل بھائی بہت شکریہ آپ کا مشورہ دینے کیلئے
 

akhtarwaseem

محفلین
اپنے علم میں اضافے کے لیئے پوچھنا چاہ رہا تھا کہ
" میخانے " کا قافیہ 3 بار دُہرایا گیا ہے،
کُل 10 اشعار کی غزل ہے، کیا یہ دُہرائی ضروری تھی؟
کیا غزل طوالت کا شکار نہیں ہو گئی ہے؟
 

اویس رضا

محفلین
اپنے علم میں اضافے کے لیئے پوچھنا چاہ رہا تھا کہ
" میخانے " کا قافیہ 3 بار دُہرایا گیا ہے،
کُل 10 اشعار کی غزل ہے، کیا یہ دُہرائی ضروری تھی؟
کیا غزل طوالت کا شکار نہیں ہو گئی ہے؟
ایک ہی قافیے کو غزل میں دہرانے میں کوئی حرج نہیں
 

اویس رضا

محفلین
آپ نے ایسی کتنی غزلیں پڑھ رکھی ہیں جن میں ایک قافیے کو 3 بار دُہرایا گیا ہو؟
جوشؔ ملیح آبادی کی یہ غزل پڑھو اس میں شباب کو قافیے کے طور پر پانچ بار دہرایا گیا ہے اور غزل کے کل اشعار بھی نو ہیں
اس کا مطلح میں یہاں پوسٹ کر دیتا ہوں
ملا جو موقع تو روک دوں گا جلال روزِ حساب تیرا
پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا
 

akhtarwaseem

محفلین
جوشؔ ملیح آبادی کی یہ غزل پڑھو اس میں شباب کو قافیے کے طور پر پانچ بار دہرایا گیا ہے اور غزل کے کل اشعار بھی نو ہیں
اس کا مطلح میں یہاں پوسٹ کر دیتا ہوں
ملا جو موقع تو روک دوں گا جلال روزِ حساب تیرا
پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا

سر دُھرانے کو تو آپ دس بار دُہرا لیں، پولیس نے پکڑنا تو ہے نہیں،
لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ اَس چیز کو پسند کیا جاتا ہے یا نہیں۔
حضرتَ جوش کا زمانہ ہوا پُرانا، شاعری بہت آگے جا چُکی ہے، ایسی کتنی
مثالیں ہوں گی جو آپ پیش کر سکیں گے؟ بہت کم ایسی غزلیں ہوتی
ہیں جن میں کوئی کہانی بیان کی جائے، ورنہ زیادہ تر قافیہ پیمائی ہی ہوتی
ہے۔ اور اَس مشق کے لیئے پانچ سے سات اشعار کافی ہونے چاہئیں تاکہ
غزل قاری پہ گراں نہ گزرے۔ لیکن یہ آپ کی غزل ہے، آپ جیسے
چاہیں اسے پیش کریں، اَس پہ اگر کوئی اعتراض کرے بھی تو کوئی
اُستاد کرے، میرے جیسوں کی کیا مجال۔ اللہ تعالی آپ کے قلم کو
اور زور عطا فرمائے۔ کوئی بات دل میں نہ رکھیے گا، معذرت کے ساتھ۔
 
حضرتَ جوش کا زمانہ ہوا پُرانا، شاعری بہت آگے جا چُکی ہے
حضرتِ جوش کا زمانہ پرانا نہیں اور سہانا ہوگیا ہے ۔دیگر احوال یہ ہے جو آپ کے سامنے ہے ،خدا سے خیر کی دعا کرتے رہیے اور آگے بڑھتے رہیے۔اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر رہے ،والسلام
 
جناب اختر صاحب، آداب!
درست یہی ہے کہ قافیہ دہرانے پر اصولا کوئی قدغن نہیں، مطلعے کا ایک قافیہ دیگر تمام اشعار میں دہرا دیا جائے تو "تکنیکی" اعتبار سے غلط نہیں ہوگا۔ ایسی غزل کو قبول عام نصیب ہونا ایک الگ قصہ ہے۔ اگر ہر بار قافیہ کے دہرانے یکسر نیا مفہوم ادا ہو رہا ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ قاری کے ذوق پر منحصر ہے کہ وہ اسے قبول یا رد کردے۔
 

akhtarwaseem

محفلین
جناب اختر صاحب، آداب!
درست یہی ہے کہ قافیہ دہرانے پر اصولا کوئی قدغن نہیں، مطلعے کا ایک قافیہ دیگر تمام اشعار میں دہرا دیا جائے تو "تکنیکی" اعتبار سے غلط نہیں ہوگا۔ ایسی غزل کو قبول عام نصیب ہونا ایک الگ قصہ ہے۔ اگر ہر بار قافیہ کے دہرانے یکسر نیا مفہوم ادا ہو رہا ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ قاری کے ذوق پر منحصر ہے کہ وہ اسے قبول یا رد کردے۔

یہ بات تو طے ہے کہ قدغن تو کوئی نہیں ہے، لیکن شاید آپ مجھ سے
اتفاق کرنا چاہیں کہ اَس آزادی کوخام خام ہی استمال کیا جاتا ہے۔ میرے
نزدیک یہ کام اُس وقت کیا جائے جب زمین انتہائی تنگ ہو اور قافیے
ناپید۔ دوسری بات: حال ہی میں آپ نے ایک جگہ غزل کی عمومی
طوالت پہ سرسری سی بات کی تھی کہ پانچ سے سات اشعار ایک غزل
میں کافی ہیں، میں بھی اسی فکر کا قائل ہوں۔ اگر کوئی بےحد پُراثر شعر
نازل ہو جائے تو کوئی حرج نہیں کے آگے بڑھا جائے، لیکن سات
اشعار میں شاعر اور قاری، دونوں کے اطمینان کا سامان موجود ہوتا ھے۔
اب ظاہر ہے کہ اس پہ بھی کوئی پابندی تو نہیں ہے، لیکن کچھ قدغنیں
ہم خود بھی تو اپنے اوپر لگا لیتے ہیں جو رواج بھی پا جاتی ہیں۔
 
Top