غزل بغرض اصلاح

محترمی جناب الف عین
جناب سید عاطف علی
جناب شکیل احمد خان23

دیوار بچائی ہے تو در نوچ رہا ہے
لالچ کا درندہ مرا گھر نوچ رہا ہے

خوشبو پہ تصرف کی تمنا میں یہ صحرا
گلشن سے شگوفے سبھی تر نوچ رہا ہے

تنہائی میں وحشت کا یہ عالم ہے کہ مجھ کو
لگتا ہے کہ سایہ کوئی در نوچ رہا ہے

خوں ہم نے پلایا ہے اسے اپنے جگر کا
ہے کون چمن سے جو ثمر نوچ رہا ہے

اک شخص چراغِ دلِ روشن سے جہاں میں
ظلمت کی سیہ شب سے سحر نوچ رہا ہے
 

الف عین

لائبریرین
مجھے تو ردیف ہی پسند نہیں آ رہی! شگوفے اور ثمر تو نوچے جا سکتے ہیں لیکن در اور گھر کے ساتھ نوچنے کا محاورہ درست نہیں لگتا۔
 
Top