غزل بغرض اصلاح

محترمی جناب الف عین
جناب سید عاطف علی
جناب شکیل احمد خان23

دیوار بچائی ہے تو در نوچ رہا ہے
لالچ کا درندہ مرا گھر نوچ رہا ہے

خوشبو پہ تصرف کی تمنا میں یہ صحرا
گلشن سے شگوفے سبھی تر نوچ رہا ہے

تنہائی میں وحشت کا یہ عالم ہے کہ مجھ کو
لگتا ہے کہ سایہ کوئی در نوچ رہا ہے

خوں ہم نے پلایا ہے اسے اپنے جگر کا
ہے کون چمن سے جو ثمر نوچ رہا ہے

اک شخص چراغِ دلِ روشن سے جہاں میں
ظلمت کی سیہ شب سے سحر نوچ رہا ہے
 

الف عین

لائبریرین
مجھے تو ردیف ہی پسند نہیں آ رہی! شگوفے اور ثمر تو نوچے جا سکتے ہیں لیکن در اور گھر کے ساتھ نوچنے کا محاورہ درست نہیں لگتا۔
 

صریر

محفلین
پانچ میں سے چار اشعار کا تاثر مثبت نہیں ہے۔
اس بات کو بھی اصلاح کلام میں شامل کیا جانا چاہیے کہ اشعار مثبت تاثر کے حامل ہوں۔
متعلقہ:
مجموعی تاثر
میرے خیال میں، شاعری کے موضوع میں اصلاح ذریعۂ اظہار کی ہونی چاہیے، نہ کہ خود اظہار کی۔ مجھے تو یہ ناممکن سی بات لگتی ہے، کہ کرب میں ڈوبے ہوئے مصرعے یا جملے کی اصلاح کرکے اسے مسرت بخش لفظوں میں تبدیل کر دیا جائے۔ شاعر عسرت عسرت پکار رہا ہو، اور اسے تین نقطوں کی اصلاح دے کر عشرت عشرت میں تبدیل کردیا جائے۔
منفی جذبات اگرچہ کسی طور پر تخریبی ہو سکتے ہیں، لیکن ادب یا آرٹ کا اصل محرک، میری نظر میں تو، یہی المیہ قسم کے جذبات ہی ہوتے ہیں ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
مجھے تو یہ ناممکن سی بات لگتی ہے، کہ کرب میں ڈوبے ہوئے مصرعے یا جملے کی اصلاح کرکے اسے مسرت بخش لفظوں میں تبدیل کر دیا جائے۔
کرب میں ڈوبا مصرع یا شعر اُس کے سامنے کہنا چاہیے جو دکھ کا مداوا کر سکے۔ ہر ایک کو اپنا دکھ سنانا کیسا؟

غزل میں ایک دو اشعار ایسے ہوں تو چلو ٹھیک ہے ، اور بقیہ اشعار ایسے ہوں جو غم سے امید کی طرف مراجعت کریں تب تو یہ ایک معتدل اپروچ ہوگی۔

اس کے برعکس ساری غزل ہی سوگ منا رہی ہو اور سارا دیوان ہی "اے غم دل کیا کروں ، اے وحشت دل کیا کروں" پر مبنی ہو تو ایسے شاعر کو مناسب نفسیاتی علاج کی ضرورت ہے ۔ ایسے شعر عموما دور زوال یا دور غلامی میں نظر آتے ہیں۔ دور آزادی میں شاعری کی کیفیت مختلف ہونی چاہیے۔


شاعر عسرت عسرت پکار رہا ہو
تو اسے شعری اصلاح کی نہیں مناسب معاشی و ذہنی اصلاح کی ضرورت ہے۔


صرف شعر موزوں کر لینا کافی نہیں ، اُس کا مجموعی تاثر بھی مثبت ہونا چاہیے۔ اگر قوم کی تعمیر کرنی ہے تو امید افزا اور ہمت افزا شاعری لکھنی ہوگی بصورت دیگر مایوس کُن شاعری ایک سُست (passive) قوم تشکیل دے گی۔
 
آخری تدوین:

صریر

محفلین
تو اسے شعری اصلاح کی نہیں مناسب معاشی و ذہنی اصلاح کی ضرورت ہے۔
بالکل آپ کی بات سے متفق ہوں، لیکن میرا ماننا ہے کہ ، پھر اُسے شعری اصلاح کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔ کیونکہ ایک آسودہ ذہن آدمی، کہ جسے اپنا غم کسی کو سنانا ہی نہیں،تو وہ کیوں اظہار اور ذریعۂ اظہار کی الجھنوں میں پھنسے گا۔

تخلیق کا مجموعی تاثر مثبت ہو، اچھی بات ہے، لیکن صرف بلند حوصلگی اور امید افزائی کے بلند بانگ اور پُر تکلف نعروں کے درمیان، ٹوٹتی امیدوں اور شکستہ حوصلوں کی بے ساختہ سسکیاں کہیں دب کر نہ رہ جائیں، ان کا سنا جانا بھی ضروری ہے۔ انسان اپنی پیدا ئش کے ساتھ ہی سے ، ایک خاص قسم کے جذبہ اور اس کے ذریعۂ اظہار کے ساتھ دنیا میں آتا ہے، اور دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے بھی، اسی کرب سے بغلگیر ہو تے ہوئے دائمی راحت پاتا ہے۔ یہ انسان کا ایک طبعی جذبہ ہے، اور اس کا اظہار بھی ۔ اس لئے مناسب ہے کہ تخلیق میں اگر کہیں جینے کی راہ دکھائی دیتی ہو، تو ساتھ ہی اس میں اک آہ بھی سنائی دے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
بالکل آپ کی بات سے متفق ہوں، لیکن میرا ماننا ہے کہ ، پھر اُسے شعری اصلاح کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔ کیونکہ ایک آسودہ ذہن آدمی، کہ جسے اپنا غم کسی کو سنانا ہی نہیں،تو وہ کیوں اظہار اور ذریعۂ اظہار کی الجھنوں میں پھنسے گا۔
اظہار اس لیے ضروری ہے کہ انسان فطرتا مدنی الطبع ہے۔ یہ کہاں ضروری ہے کہ وہ غم کی صورت میں ہی اظہار/ کلام کرے اور بصورت دیگر خاموش رہے۔

اسی طرح خاموشی کی اپنی عظمت ہے جہاں کلام انسان کا زیور ہے وہیں خاموشی بھی اظہار کا ایک ذریعہ ہے جب آپ نہ کہہ ، کر کے دکھا پر عمل کر رہے ہیں۔

متعلقہ:
شیخ سعدی فرماتے ہیں:
دو چیزیں عقل کا عیب ہیں۔ بولنے کے وقت خاموش رہنا اور خاموش رہنے کے وقت بولتے جانا۔

نہ کہہ ، کر کے دکھا : یہ ابو انیس محمد برکت علی لدھیانوی کا قول ہے۔
 
Top