سرفرازاحمدسحر
محفلین
ایک غزل کے کچھ اشعار پیش خدمت ہیں۔ اساتذہ سے اصلاح کی درخواست ہے۔
میں نے خوشبو یوں نشانی کی ہے
چند کلیوں کی نگہبانی کی ہے
زخم جاڑے میں ہیں مہکے اب کے
رُت دسمبر میں سہانی کی ہے
وصف لایا ہے زمیں پر یہ مجھے
میں نے دل میں جو بھی ٹھانی، کی ہے
درد تیرا تو ہے کھلتا دن میں
رات کی یاد میں نے رانی کی ہے
پچھلی الفت کی تھی دل پر جو برف
نئی الفت نے وہ پانی کی ہے
سرفراز احمد سحرؔ
میں نے خوشبو یوں نشانی کی ہے
چند کلیوں کی نگہبانی کی ہے
زخم جاڑے میں ہیں مہکے اب کے
رُت دسمبر میں سہانی کی ہے
وصف لایا ہے زمیں پر یہ مجھے
میں نے دل میں جو بھی ٹھانی، کی ہے
درد تیرا تو ہے کھلتا دن میں
رات کی یاد میں نے رانی کی ہے
پچھلی الفت کی تھی دل پر جو برف
نئی الفت نے وہ پانی کی ہے
سرفراز احمد سحرؔ