غزل بغرض اصلاح

ایک غزل کے کچھ اشعار پیش خدمت ہیں۔ اساتذہ سے اصلاح کی درخواست ہے۔

میں نے خوشبو یوں نشانی کی ہے
چند کلیوں کی نگہبانی کی ہے

زخم جاڑے میں ہیں مہکے اب کے
رُت دسمبر میں سہانی کی ہے

وصف لایا ہے زمیں پر یہ مجھے
میں نے دل میں جو بھی ٹھانی، کی ہے

درد تیرا تو ہے کھلتا دن میں
رات کی یاد میں نے رانی کی ہے

پچھلی الفت کی تھی دل پر جو برف
نئی الفت نے وہ پانی کی ہے

سرفراز احمد سحرؔ
 

الف عین

لائبریرین
میں نے خوشبو یوں نشانی کی ہے
چند کلیوں کی نگہبانی کی ہے
÷÷۔ہلا مصرع بحر میں ہے اگرچہ ’یوں‘ کا محض ’یُ‘ ےقطیع ہونا اچھا نہیں۔ دوسرا بحر سے خارج۔ محض ’نگانی‘ بحر میں آتا ہے، نگہ بانی نہیں آ سکتا۔

زخم جاڑے میں ہیں مہکے اب کے
رُت دسمبر میں سہانی کی ہے
۔۔درست

وصف لایا ہے زمیں پر یہ مجھے
میں نے دل میں جو بھی ٹھانی، کی ہے
÷÷’جو بھیُ کا ’جُبی‘ تقطیع ہونا درست نہیں۔

درد تیرا تو ہے کھلتا دن میں
رات کی یاد میں نے رانی کی ہے
÷÷ دوسرا مصرع بحر میں نہیں۔ سمجھ بھی نہیں سکا۔

پچھلی الفت کی تھی دل پر جو برف
نئی الفت نے وہ پانی کی ہے
÷÷ٹھیک
 
Top