غزل - بھوک چہروں پہ لیے چاند سے پیارے بچّے - بیدل حیدری

محمد وارث

لائبریرین
بھوک چہروں پہ لیے چاند سے پیارے بچّے
بیچتے پھرتے ہیں گلیوں میں غبارے بچّے

ان ہواؤں سے تو بارود کی بُو آتی ہے
ان فضاؤں میں تو مر جائیں گے سارے بچّے

کیا بھروسہ ہے سمندر کا، خدا خیر کرے
سیپیاں چننے گئے ہیں مرے سارے بچّے

ہو گیا چرخِ ستم گر کا کلیجہ ٹھنڈا
مر گئے پیاس سے دریا کے کنارے بچّے

یہ ضروری ہے نئے کل کی ضمانت دی جائے
ورنہ سڑکوں پہ نکل آئیں گے سارے بچّے

(بیدل حیدری)
 

جیا راؤ

محفلین
ان ہواؤں سے تو بارود کی بُو آتی ہے
ان فضاؤں میں تو مر جائیں گے سارے بچّے


یہ ضروری ہے نئے کل کی ضمانت دی جائے
ورنہ سڑکوں پہ نکل آئیں گے سارے بچّے


بہت اچھا !!!
 

آصف شفیع

محفلین
یہ ضروری ہے نئے کل کی ضمانت دی جائے
کیا خوبصورت لائن ہے۔ وارث صاحب! بیدل حیدری کی غزل شیئر کرنے کا شکریہ۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
بھوک چہروں پہ لیے چاند سے پیارے بچّے
بیچتے پھرتے ہیں گلیوں میں غبارے بچّے



یہ ضروری ہے نئے کل کی ضمانت دی جائے
ورنہ سڑکوں پہ نکل آئیں گے سارے بچّے



عمدہ کلام :)
بہت شکریہ وارث!
 
Top