نظر لکھنوی غزل: بہ شکلِ دل ہی تمہیں دل کی جستجو کیا ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

بہ شکلِ دل ہی تمہیں دل کی جستجو کیا ہے
اسی جگہ پہ یہ دیکھیں لہو لہو کیا ہے

خدا کی ذات پہ یہ بحث و گفتگو کیا ہے
سمجھ لے اپنی حقیقت کو پہلے تُو کیا ہے

گہر بنا ہے چمکتا ہوا یہ خونِ صدف
نہیں تو قطرۂ نیساں کی آبرو کیا ہے

ہزار عالمِ رنگیں ہیں دل کی دنیا میں
مری نگاہ میں دنیائے رنگ و بو کیا ہے

جو دسترس میں ہو پی جاؤں میں تو خُم کا خُم
کہ مجھ کو بادۂ یک ساغر و سبو کیا ہے

تمام نظم ہو زیر و زبر، ہو امن تباہ
ہر اک یہی جو کہے دوسرے کو تُو کیا ہے

پتہ چلے کہ مقابل وہ کس کے آیا ہے
نظرؔ کے سامنے آئے سہی عدو کیا ہے

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 

عرفان سعید

محفلین
خدا کی ذات پہ یہ بحث و گفتگو کیا ہے
سمجھ لے اپنی حقیقت کو پہلے تُو کیا ہے
سبحان اللہ!
گہر بنا ہے چمکتا ہوا یہ خونِ صدف
نہیں تو قطرۂ نیساں کی آبرو کیا ہے
بہت خوب!
ہزار عالمِ رنگیں ہیں دل کی دنیا میں
مری نگاہ میں دنیائے رنگ و بو کیا ہے
واہ واہ! کیا کمال شعر ہے!
 
Top