پیاسا صحرا
محفلین
غزل
تری آنکھ کو آزمانا پڑا
مجھے قصہء غم سنانا پڑا
غمِ زندگی تیری خاطر ہمیں
سرِ دار بھی مسکرانا پڑا
حوادث کی شب اتنی تاریک تھی
جوانی کو ساغر اٹھانا پڑا
مرے دشمنِ جاں، ترے واسطے
کئی دوستوں کو بھلانا پڑا
زمانے کی رفتار کو دیکھ کر
قیامت پہ ایمان لانا پڑا
جنہیں دیکھنا بھی نہ چاہے نظر
انہیں سے تعلق بڑھانا پڑا
کئی سانپ تھے قیمتی اس قدر
انہیں آستیں میں چھپانا پڑا
ہواؤں کے تیور جو برہم ہوئے
چراغون کو خود جھلملانا پڑا
محسن نقوی
تری آنکھ کو آزمانا پڑا
مجھے قصہء غم سنانا پڑا
غمِ زندگی تیری خاطر ہمیں
سرِ دار بھی مسکرانا پڑا
حوادث کی شب اتنی تاریک تھی
جوانی کو ساغر اٹھانا پڑا
مرے دشمنِ جاں، ترے واسطے
کئی دوستوں کو بھلانا پڑا
زمانے کی رفتار کو دیکھ کر
قیامت پہ ایمان لانا پڑا
جنہیں دیکھنا بھی نہ چاہے نظر
انہیں سے تعلق بڑھانا پڑا
کئی سانپ تھے قیمتی اس قدر
انہیں آستیں میں چھپانا پڑا
ہواؤں کے تیور جو برہم ہوئے
چراغون کو خود جھلملانا پڑا
محسن نقوی