نظر لکھنوی غزل: تعذیب کی ساعت جب آئے کہتے ہیں کہ ٹلنا مشکل ہے٭ نظرؔ لکھنوی

دادا مرحوم محمد عبد الحمید صدیقی کی ایک غزل پیشِ خدمت ہے :

تعذیب کی ساعت جب آئے کہتے ہیں کہ ٹلنا مشکل ہے
بہتر ہے بدل لو اپنے کو فطرت کا بدلنا مشکل ہے

صد حیف بلا کی پستی ہے اب اس سے نکلنا مشکل ہے
اب تک تو سنبھلتے آئے تھے اس بار سنبھلنا مشکل ہے

میدانِ عمل میں اتریں گر حالات بھی کروٹ لیں شاید
اے شیخِ مکرم باتوں سے حالات بدلنا مشکل ہے

خود آگ میں اپنی جلتے ہیں پروانے فدائے شمع ہیں کب
اے دوست پرائی آگ میں تو سب کہتے ہیں جلنا مشکل ہے

پہچان کھرے اور کھوٹے کی اس راہ میں ہوتی ہے ہمدم
یہ راہِ محبت ہے اس میں ہر ایک کا چلنا مشکل ہے

یہ ظلمتِ شب یہ سہما دل پُر ہول یہ منظر اُف توبہ
تم صبح کی خبریں دیتے ہو یاں رات نکلنا مشکل ہے

دلکش ہے ہمیں ہر نظارہ ہر رنگ میں ہم کھو جاتے ہیں
یہ حال نظرؔ ہے جب اپنا کیا پاؤں پھسلنا مشکل ہے
 
آخری تدوین:
بہت خوب واہ واہ
تابش بھائی، مذید کلام بھی شامل کیجئے
ماشالله بہت اچھی غزل ہے ایک بار پھر داد قبول کیجئے
 

طارق شاہ

محفلین
میدانِ عمل میں اُتریں گر، حالات بھی کروَٹ لیں شاید
اے شیخِ مُکرّم باتوں سے حالات بدلنا مُشکل ہے

بہت خوب !
مقطع صنعتِ ایہام سے اور لاجواب ہُوا :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
میدانِ عمل میں اُتریں گر، حالات بھی کروَٹ لیں شاید
اے شیخِ مُکرّم باتوں سے حالات بدلنا مُشکل ہے

بہت خوب !
مقطع صنعتِ ایہام سے اور لاجواب ہُوا :)

یہ صنعتَ ایہام کیا چیز ہے؟ کچھ ہم کم علموں کو بھی اپنے علم سے فیض یاب کیجیے۔
 

طارق شاہ

محفلین
"اخلاقیات سے قطع نظر ادبیات کے حوالے سے بہرحال ایہام گو شعراء نے الفاظ کے مفاہیم اور معنوی لطافتوں اور نزاکتوں کے حوالے سے جو کام کیا وہ ناقابل فراموش ہے ۔ کثیرالمعنویت کی اہمیّت مُسلّمہ ہے۔ لفظ کی حُرمت اور اُسے برتنے کا قرِینہ آنا چاہیے ۔ ایہام گو شعرا نے مرصّع ساز کا کردار ادا کیا، الفاظ کو مربُوط انداز میں اشعار کے قالب میں ڈھال کر اُنھوں نے الفاط کو گنجینہ معانی کا طلِسم بنادیا
تاریخِ ادب میں اِس تجزیے کو ہمشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا"۔
۔۔۔۔۔
اِس صنعت سے اِنحراف کی اصل وجہ ایسے شعراء یا ان کا کلام بنا جن پیشِ نظر ذومعنویعت ہی بڑی بات تھی اور جنھوں اس کا استعمال صرف اخلاق سے گِرے ہوئے، یا پہلوئے زم کے لئے مختص رکھا، ورنہ اِس صنعت میں بہت خوب اشعار، پر مغز اور با معانی اشعار کہے، لکھے گئے ہیں

اِس صنعت میں شستہ اور شائستہ، بہت مربُوط اشعار آج کل بھی ہر اچھے شاعر کے کلام میں مل جائیں گے

اس میں بھی ملفوظی (صوتی) اور مکتوبی (بصری) ، دو جداگانہ صنف ہے

صوتی یا ملفوظی کے لئے یہ شعر :

اِس پر نہ قدم رکھنا یہ راہ وفا ہے
سرشار نہیں ہو کہ گزر جاؤگے لوگو
سرشار صدیقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محاسنِ شاعری کے کسی بھی اچھی اور مستند کتاب میں اس بابت اور رموز شاعری کے متعلق
سیرحاصل معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں :)

شکریہ
 

فرخ منظور

لائبریرین
"اخلاقیات سے قطع نظر ادبیات کے حوالے سے بہرحال ایہام گو شعراء نے الفاظ کے مفاہیم اور معنوی لطافتوں اور نزاکتوں کے حوالے سے جو کام کیا وہ ناقابل فراموش ہے ۔ کثیرالمعنویت کی اہمیّت مُسلّمہ ہے۔ لفظ کی حُرمت اور اُسے برتنے کا قرِینہ آنا چاہیے ۔ ایہام گو شعرا نے مرصّع ساز کا کردار ادا کیا، الفاظ کو مربُوط انداز میں اشعار کے قالب میں ڈھال کر اُنھوں نے الفاط کو گنجینہ معانی کا طلِسم بنادیا
تاریخِ ادب میں اِس تجزیے کو ہمشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا"۔
۔۔۔۔۔
اِس صنعت سے اِنحراف کی اصل وجہ ایسے شعراء یا ان کا کلام بنا جن پیشِ نظر ذومعنویعت ہی بڑی بات تھی اور جنھوں اس کا استعمال صرف اخلاق سے گِرے ہوئے، یا پہلوئے زم کے لئے مختص رکھا، ورنہ اِس صنعت میں بہت خوب اشعار، پر مغز اور با معانی اشعار کہے، لکھے گئے ہیں

اِس صنعت میں شستہ اور شائستہ، بہت مربُوط اشعار آج کل بھی ہر اچھے شاعر کے کلام میں مل جائیں گے

اس میں بھی ملفوظی (صوتی) اور مکتوبی (بصری) ، دو جداگانہ صنف ہے

صوتی یا ملفوظی کے لئے یہ شعر :

اِس پر نہ قدم رکھنا یہ راہ وفا ہے
سرشار نہیں ہو کہ گزر جاؤگے لوگو
سرشار صدیقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محاسنِ شاعری کے کسی بھی اچھی اور مستند کتاب میں اس بابت اور رموز شاعری کے متعلق
سیرحاصل معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں :)

شکریہ

کتابیں تو ہمارے پاس بہت سی ہیں۔ ہم تو آپ کے منہ سے سننا چاہتے تھے کہ آپ ایہام گوئی کو کیا سمجھتے ہیں۔ پتا چلا کہ صرف ادبی اصطلاحات کے نام ہی یاد ہیں۔
 
Top