لیاقت علی عاصم غزل: تلخیِ مے تلخیِ حالات کی توہین ہے

تلخیِ مے تلخیِ حالات کی توہین ہے
نشّے میں سچ بولنا سچ بات کی توہین ہے

گر نہیں ہے آئینہ پتھر اٹھا لو دوستو
یونہی خالی ہاتھ پھرنا ہاتھ کی توہین ہے

آدمی ہی آدمی سے بات کرتا ہے جناب
بات کرنے میں بھلا کس بات کی توہین ہے

آپ نے تصویر کھنچوائی مدد کرتے ہوئے!
یہ تو کارِ خیر کی، خیرات کی توہین ہے

پاس بیٹھے دور تکنا وہ بھی خاموشی کے ساتھ
یہ تو ہنستے بولتے لمحات کی توہین ہے

دل پہ چھانا اور آنکھوں میں نہ آنا بادلو
یہ تو ساون کی ہتک، برسات کی توہین ہے

باعثِ اعزاز ہے دریا میں ملنا قطرے کا
کون کہتا ہے محبت ذات کی توہین ہے

٭٭٭
لیاقت علی عاصم
 
Top