محمد عدنان اکبری نقیبی
لائبریرین
کچھ دنوں سے ہماری زباں پر احمد بھائی کی اس شاندار غزل کے اشعار لا شعور طور پر ورد زبان ہیں۔آج وقت میسر آیا تو اس غزل کو ڈھونڈ کر نکالا ۔کئی بار پڑھی مگر دل کی کسک ہے کہ ختم ہو کر ہی نہیں دے رہی ہے۔تو اور ترے ارادےمحمداحمد
چل چھوڑ مسکرا دے
دل کون دیکھتا ہے
پھولوں سے گھر سجا دے
میں خود کو ڈھونڈتا ہوں
مجھ سے مجھے چھپا دے
سُن اے فریبِ منزل
رستہ نیا سُجھا دے
سوچوں نہ پھر وفا کا
ایسی کڑی سزا دے
مرتا ہوں پیاس سے میں
تو زہر ہی پلا دے
منظر یہ ہو گیا بس
پردے کو اب گرا دے
نامہ فراق کا ہے
لا! وصل کا پتہ دے
پھر مائلِ یقیں ہوں
پھر سے مجھے دغا دے
احمدؔ غزل کہی ہے
جا بزم میں سنا دے
محمد احمدؔ
کبھی کبھی کیفیت عجیب سے عجیب تر ہو جاتی ہے ،جس کا بیاں لفظوں میں ممکن نہیں ہوتا تو ہم اپنے جذبات کی عکاسی کے لیے اشعار کی صورت آئینہ ڈھونڈ لیتے ہیں کہ شاید اشعار ہمارے ناسور نما زخموں پر مرہم کا کام کر سکیں۔