عرفان علوی
محفلین
احباب گرامی ، سلام عرض ہے !
ایک تازہ غزل پیش ہے . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .
تھک گیا تھا سفر میں لمحوں كے
وقت ٹھہرا ہے گھر میں لمحوں كے
بھولے بسرے تمام ماہ و سال
ہَم نے دیکھے شرر میں لمحوں كے
پُھر سے آتے ہیں ، پُھر سے جاتے ہیں
سحر ہے بال و پر میں لمحوں كے
پھول کوئی نہ پھل نہ سایہ ہے
بس ہیں کانٹے شجر میں لمحوں كے
دردِ دِل ، دردِ روح ، دردِ جاں
سب بسے ہیں نگر میں لمحوں كے
بھیگی آنكھوں نے جتنے دیکھے ہیں
رنگ سب ہیں نظر میں لمحوں كے
بات جو بھی کہی تھی صدیوں نے
دب گئی شور و شر میں لمحوں كے
اپنی تاریخ صرف اتنی ہے
ہَم جئے ہیں کھنڈر میں لمحوں كے
جانے کب عمر کٹ گئی عابدؔ
ہَم تو گُم تھے سفر میں لمحوں كے
نیازمند ،
عرفان عابدؔ
ایک تازہ غزل پیش ہے . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .
تھک گیا تھا سفر میں لمحوں كے
وقت ٹھہرا ہے گھر میں لمحوں كے
بھولے بسرے تمام ماہ و سال
ہَم نے دیکھے شرر میں لمحوں كے
پُھر سے آتے ہیں ، پُھر سے جاتے ہیں
سحر ہے بال و پر میں لمحوں كے
پھول کوئی نہ پھل نہ سایہ ہے
بس ہیں کانٹے شجر میں لمحوں كے
دردِ دِل ، دردِ روح ، دردِ جاں
سب بسے ہیں نگر میں لمحوں كے
بھیگی آنكھوں نے جتنے دیکھے ہیں
رنگ سب ہیں نظر میں لمحوں كے
بات جو بھی کہی تھی صدیوں نے
دب گئی شور و شر میں لمحوں كے
اپنی تاریخ صرف اتنی ہے
ہَم جئے ہیں کھنڈر میں لمحوں كے
جانے کب عمر کٹ گئی عابدؔ
ہَم تو گُم تھے سفر میں لمحوں كے
نیازمند ،
عرفان عابدؔ
آخری تدوین: