عرفان علوی
محفلین
روفی بھائی، بجا فرمایا .ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا درد صرف کسی ٹھوس چیز کی ضرب کا ہی ہو سکتا ہے؟
روفی بھائی، بجا فرمایا .ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا درد صرف کسی ٹھوس چیز کی ضرب کا ہی ہو سکتا ہے؟
عاطف بھائی، بہت نوازش ! جزاک الله .عرفان بھائی اچھے اشعار ہیں سادہ بیانی کے ساتھ۔ لیکن عرفان بھائی اس مرتبہ مطلع کچھ شایاں شان نہیں لگا مجھے۔
سادگی کی داد البتہ واجب ہے حسب روایت ۔
علوی بھائی چلیں ایک پرانا سبق دہرا لینے میں حرج نہیں ،کچھ شعرا ہیں جن کا شعر زبان و بیان کے اعتبار سے سند مانا جاتا ہے انھیں استاد کہا جاتا ہے چنانچہ ادبی دنیا میں نمایاں حیثیت ،سب کی واقفیت وغیرہ بعد کی چیزیں ہیں تبھی تو حیرت ہوتی ہےکہ فیض کو بھی ان اساتذہ میں شامل نہیں کیاجاتا وجہ یہ ہے کہ انھوں نےاپنی نظموں میں اردو زبان ومحاورے کو انگریزی کی تقلید میں خاصا بگاڑ دیا ہے۔میں کوشش کرتا ہوں کہ جن شعرا کی مثالیں فراہم کروں ، ادبی دنیا میں ان کی نمایاں حیثیت ہو . بہزاد لکھنوی اور مجاز سے تو آپ واقف ہونگے . مظفر وارثی بھی کسی تعریف کے محتاج نہیں . محسن احسان شاید نسبتاً کم معروف ہیں، لیکن موصوف کوئی معمولی شاعر نہیں . ان کے مقام کا اندازہ ان کا تعارف اورکلام پڑھ کر لگایا جا سکتا ہے .
دیکھیے آپ کو تو معلوم ہے کہ زبان میں قیاس کارگر نہیں ،اور جان جلانا ،سوختہ جان وغیرہ زبان ہے۔لیکن اساتذہ کے ہاں سے یہ درد روح ،درد جا ں، اور جان و روح کی تراکیب آپ کو شاید ہی ملیں۔دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے (میر )
روح کو بھی مزہ محبّت کا
دل کی ہم سایگی سے ملتا ہے (جگر )
اگر جان جیسی غیر مادّی چیز سے دھواں نکل سکتا ہے اور روح جیسی غیر مادّی چیز کو محبّت کا مزہ مل سکتا ہے تو ان میں درد کے پائے جانے میں کیا حیرت ہے ؟
اس قدر جمود پر اصرار کیوں یاسر بھائی؟ جان و روح کی ترکیب کیا حرج ہے؟ مترادفات کا عطفی تراکیب میں استعمال تو عام سی بات ہے؟دیکھیے آپ کو تو معلوم ہے کہ زبان میں قیاس کارگر نہیں ،اور جان جلانا ،سوختہ جان وغیرہ زبان ہے۔لیکن اساتذہ کے ہاں سے یہ درد روح ،درد جا ں، اور جان و روح کی تراکیب آپ کو شاید ہی ملیں۔
مرحبا۔عام سی بات ہے کا مطلب تو یہ ہے کہ آپ دس مثالیں اساتذہ کی اسناد کے ساتھ پیش کر سکتے ہیں ۔چلیں کم کر دیتے ہیں ،پانچ ہی امثلہ پیش کر دیں ایسی اساتذہ کے اشعار سے ،ان شاء اللہ پہلی ملاقات پہ مبلغ سو روپے عند الطلب انعام آپ کی خدمت میں پیش کیا جائے گا۔اب غائب نہیں ہو جائیے گا۔مترادفات کا عطفی تراکیب میں استعمال تو عام سی بات ہے؟
میں مثال دے بھی دوں تو آپ کہہ دیں گے کہ ریختہ سے کاپی پیسٹ کر دیامرحبا۔عام سی بات ہے کا مطلب تو یہ ہے کہ آپ دس مثالیں اساتذہ کی اسناد کے ساتھ پیش کر سکتے ہیں ۔چلیں کم کر دیتے ہیں ،پانچ ہی امثلہ پیش کر دیں ایسی اساتذہ کے اشعار سے ،ان شاء اللہ پہلی ملاقات پہ مبلغ سو روپے عند الطلب انعام آپ کی خدمت میں پیش کیا جائے گا۔اب غائب نہیں ہو جائیے گا۔
مذاق سے ہٹ کر،کیا قید و بند، ایثار و قربانی،جور و جفا، ظلم و ستم ، عشق و الفت وغیرہ ... ایسی تراکیب کا استعمال اہل زبان کے یہاں عام نہیں؟ اب آپ کہیں گے کہ اساتذہ کے کلام میں سے ایسی مثالیں ڈھونڈ کر لاؤ ... جو تلاش کرنے پر شاید مل بھی جائیں ... مگر سوال یہ ہے کہ اگر یہ اساتذہ کے یہاں عام مستعمل نہ بھی ہوں تو ان کو قابل اعتراض یا معیوب کیونکر ٹھہرایا جا سکتا ہے؟
دیکھیں اس پہ بات ہو چکی، جون ایلیا کی مثال بھی دی ،یعنی اجتہاد کے لیے بھی اہلیت پیدا کرنی ہوگی ،زبان میں جدت لانے کے لیے زبان کے مسلمات تو معلوم ہوں یہ نہ ہو کہ اوزان سمجھ میں نہیں آرہے اور کہا جارہا ہے کہ میں اوزان کا قائل نہیں بلکہ نثری نظم کا قائل ہوں۔آپ نے کہا کہ زبان میں قیاس کارگر نہیں ... چلیں یوں ہی سہی، تو کیا اجتہاد بھی مطلقا ناجائز ہے ؟ اگر ایسا ہے تو زبان کا ارتقا ہی کیونکر ہو سکے گا؟
نہیں یہاں آپ سے چوک ہو گئی، میں علوی صاحب کا دل سے احترام کرتا ہوں ،ایسی مثبت سوچ رکھنے والا شاعر شاذ ہی نظر آتا ہے۔ غزل پہ بے لاگ لکھنے کے لیے اور بھی بہت کچھ ہے بس ایک مصرع پہ اپنی کھٹک کا اظہار کیا اسے بھد اڑانا تو نہیں کہا جائے گا۔دلائل کا مطالبہ بھی میں نے ان سے نہیں کیا تھا بھائی۔مگر جب آپ کے ہی مطالبے معتبر حوالے مہیا کیے گئے تو آپ نے ان کی بھد اڑا دی
یاسر بھائی ، میں عموماً روایت پسند ہوں ، اور اجتہاد میں بھی روایت کا پاس رکھتا ہوں . یہاں بھی میں نے جو تراکیب استعمال کی ہیں ، وہ میری ایجاد نہیں ہیں ، بلکہ معروف شعرا کے یہاں ان کی مثالیں موجود ہیں . آپ نے حال ہی میں ایک ترکیب ’نقد نگاری‘ استعمال کی تھی . میرے دریافت کرنے پر آپ نے اس کی کوئی مثال نہیں دی . مثال شاید ہوگی بھی نہیں . لیکن اس سے خاص فرق نہیں پڑتا . آپ کے پاس اس ترکیب کا جواز تھا ، لہذا اس پر مزید سوالات فضول تھے . تو بھائی ، جو آزادی آپ خود استعمال کر رہے ہیں ، وہ اوروں کو بھی عطا کریں . مذاق بر طرف،اگر ہر ترکیب اور اصطلاح کی قبولیت کی شرط اس کی ہو بہو مثال میر ، داغ اور غالب کے یہاں ہونا طے پائے تو پھر زبان اور فن میں نیا کچھ نہیں آئیگا . میری ناچیز رائے میں رہنمائی کے لئے ہمیں کلاسیکی شاعری کے علاوہ دیگر معروف شعرا کے کلام کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے . حتیٰ کہ اگر کوئی بالکل نئی اور اچھوتی ترکیب سلیقے سے برتی جائے تو اسے قبول کرنے میں بھی تکلّف نہیں ہونا چاہیے . خیر، جیسا آپ نے فرمایا ، یہ معاملہ در اصل ذوق کا ہے . کسی کو اگر کچھ پسند نہیں آتا تو بس نہیں آتا .علوی بھائی جزاک اللہ خیر کہ آپ نے طویل خط میری تشفی کرنے کو لکھا۔
علوی بھائی چلیں ایک پرانا سبق دہرا لینے میں حرج نہیں ،کچھ شعرا ہیں جن کا شعر زبان و بیان کے اعتبار سے سند مانا جاتا ہے انھیں استاد کہا جاتا ہے چنانچہ ادبی دنیا میں نمایاں حیثیت ،سب کی واقفیت وغیرہ بعد کی چیزیں ہیں تبھی تو حیرت ہوتی ہےکہ فیض کو بھی ان اساتذہ میں شامل نہیں کیاجاتا وجہ یہ ہے کہ انھوں نےاپنی نظموں میں اردو زبان ومحاورے کو انگریزی کی تقلید میں خاصا بگاڑ دیا ہے۔
ماشاء اللہ جانتے تو آپ بھی ہیں کہ استاد کون کون ہیں تبھی فورا میر اور جگر کی مثالیں پیش کیں،
دیکھیے آپ کو تو معلوم ہے کہ زبان میں قیاس کارگر نہیں ،اور جان جلانا ،سوختہ جان وغیرہ زبان ہے۔لیکن اساتذہ کے ہاں سے یہ درد روح ،درد جا ں، اور جان و روح کی تراکیب آپ کو شاید ہی ملیں۔
محترم اعجاز صاحب، ایک مدّت کے بعد آپ کی شاباشی کا شرف حاصل ہوا ، اور بےحد خوشی ہوئی . بہت بہت شکریہ!دل و جاں کے درد کی بات پر متفق ہوں عرفان علوی سے، لیکن لمحوں میں نظر کے.. پر یاسر شاہ سے متفق ہوں۔ ویسے بہت اچھے اشعار نکالے ہیں مشکل زمین میں
علوی بھائی -مباحثے کی ابتدا دلائل کی پیشکش سے ہوتی ہے وگرنہ ذوق کا اظہار جس طرح شاعری ہے ویسے ہی تنقید بھی -جزاک الله خیر خاصی تشفی ہو گئی اب آپ کے خط سے-یاسر بھائی ، میں عموماً روایت پسند ہوں ، اور اجتہاد میں بھی روایت کا پاس رکھتا ہوں . یہاں بھی میں نے جو تراکیب استعمال کی ہیں ، وہ میری ایجاد نہیں ہیں ، بلکہ معروف شعرا کے یہاں ان کی مثالیں موجود ہیں . آپ نے حال ہی میں ایک ترکیب ’نقد نگاری‘ استعمال کی تھی . میرے دریافت کرنے پر آپ نے اس کی کوئی مثال نہیں دی . مثال شاید ہوگی بھی نہیں . لیکن اس سے خاص فرق نہیں پڑتا . آپ کے پاس اس ترکیب کا جواز تھا ، لہذا اس پر مزید سوالات فضول تھے . تو بھائی ، جو آزادی آپ خود استعمال کر رہے ہیں ، وہ اوروں کو بھی عطا کریں . مذاق بر طرف،اگر ہر ترکیب اور اصطلاح کی قبولیت کی شرط اس کی ہو بہو مثال میر ، داغ اور غالب کے یہاں ہونا طے پائے تو پھر زبان اور فن میں نیا کچھ نہیں آئیگا . میری ناچیز رائے میں رہنمائی کے لئے ہمیں کلاسیکی شاعری کے علاوہ دیگر معروف شعرا کے کلام کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے . حتیٰ کہ اگر کوئی بالکل نئی اور اچھوتی ترکیب سلیقے سے برتی جائے تو اسے قبول کرنے میں بھی تکلّف نہیں ہونا چاہیے . خیر، جیسا آپ نے فرمایا ، یہ معاملہ در اصل ذوق کا ہے . کسی کو اگر کچھ پسند نہیں آتا تو بس نہیں آتا .
یاسر بھائی ... جتنی مغائرت ظلم اور ستم یا جور اور جفا میں ہے، جان و روح یا دل و روح میں بھی کم از کم اتنے درجے کی تو موجود ہی ہے ... چلیں آپ نے کم از کم "بظاہر مترادفات" پر مبنی عطفی تراکیب کا وجود تو تسلیم کیا، پہلے تو آپ نے مطلقا ہی ان کے وجود کا انکار کر دیا تھا ... ظلم و ستم یا جور و جفا کے لیے ریختہ کو کیا کھنگالیں، 99.99 فیصد امکان ہے کہ میر و غالب نے ان تراکیب کو استعمال کیا ہوگا. ظلم اور ستم یا جور اور جفا کی لطیف مغائرت کی تحقیق پھر کسی موقع کے لیے رکھ چھوڑتے ہیں.پیارے احسن بات یہ ہے کہ حرف عطف عموماً دو یکساں یا ہم معنی الفاظ کے درمیان نہیں لایا جاتا چنانچہ ایسے مرکبات میں بظاہر مترادف اور یکساں نظر آنے والے الفاظ میں بھی کچھ نہ کچھ مغائرت ہوتی ہے