پیاسا صحرا
محفلین
غزل
تیرا قصور نہیں، میرا تھا
میں تُجھ کو اپنا سمجھا تھا
دیکھ کے تیرے بدلے تیور
میں تو اُسی دن رو بیٹھا تھا
اب میں سمجھا ، اب یاد آیا
تُو اُس دن کیوں چُپ چُپ سا تھا
تجھ کو جانا ہی تھا لیکن
مِلے بغیر ہی کیا جانا تھا
اب تجھے کیا کیا یاد دِلاؤں
اب تو وہ سب کچھ ہی دھوکا تھا
وہی ہوئی ہے جو ہونی تھی
وہی مِلا ہے جو لِکّھا تھا
دِل کو یونہی سا رنج ہے ورنہ
تیرا میرا ساتھ ہی کیا تھا
کِس کِس بات کو روؤں ناصر
اپنا لہنا ہی اِتنا تھا
ناصر کاظمی
تیرا قصور نہیں، میرا تھا
میں تُجھ کو اپنا سمجھا تھا
دیکھ کے تیرے بدلے تیور
میں تو اُسی دن رو بیٹھا تھا
اب میں سمجھا ، اب یاد آیا
تُو اُس دن کیوں چُپ چُپ سا تھا
تجھ کو جانا ہی تھا لیکن
مِلے بغیر ہی کیا جانا تھا
اب تجھے کیا کیا یاد دِلاؤں
اب تو وہ سب کچھ ہی دھوکا تھا
وہی ہوئی ہے جو ہونی تھی
وہی مِلا ہے جو لِکّھا تھا
دِل کو یونہی سا رنج ہے ورنہ
تیرا میرا ساتھ ہی کیا تھا
کِس کِس بات کو روؤں ناصر
اپنا لہنا ہی اِتنا تھا
ناصر کاظمی