محمد حفیظ الرحمٰن
محفلین
غزل
سرور بارہ بنکوی
جب وفا کی راہ میں سینہ سپر ایسے بھی ہیں
سر سے در گزریں گےہم، شوریدہ سر ایسے ہیں
زندگی سے بھاگ کر، چھُپ کر حصارِ ذات میں
خود سے بھی سہمے ہوئے ہیں، خود نِگر ایسے بھی ہیں
جِس طرح بے فیض ہی رہتے ہیں اکثر خود پسند
پھولتے پھلتے نہیں ہیں کچھ شجر ایسے بھی ہیں
تُو کبھی دیکھے تو گزرےاُن پہ صحرا کا گُماں
جگمگاتے جاگتے شہروں میں گھر ایسے بھی ہیں
جن سے مِل کر زندگی سے عشق ہو جائےوہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں
وا درِ زنداں ہوا ہے اور نہ ہو شاید سرور
سر سلامت ہے تو دیواروں میں در ایسے بھی ہیں
سرور بارہ بنکوی
جب وفا کی راہ میں سینہ سپر ایسے بھی ہیں
سر سے در گزریں گےہم، شوریدہ سر ایسے ہیں
زندگی سے بھاگ کر، چھُپ کر حصارِ ذات میں
خود سے بھی سہمے ہوئے ہیں، خود نِگر ایسے بھی ہیں
جِس طرح بے فیض ہی رہتے ہیں اکثر خود پسند
پھولتے پھلتے نہیں ہیں کچھ شجر ایسے بھی ہیں
تُو کبھی دیکھے تو گزرےاُن پہ صحرا کا گُماں
جگمگاتے جاگتے شہروں میں گھر ایسے بھی ہیں
جن سے مِل کر زندگی سے عشق ہو جائےوہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں
وا درِ زنداں ہوا ہے اور نہ ہو شاید سرور
سر سلامت ہے تو دیواروں میں در ایسے بھی ہیں