فاتح بھائی ۔۔۔
(معافی چاہتا ہوں کہ صاحب کا سابقہ لاحقہ نہیں لگا سکتا ہوں یہ آپ کو ہی زیب دیتا ہے کہ لمحے میں غیریت برت لیتے ہیں)
سال بھر ہونے کو ہے جب یہ غزل آپ سے فون پر سنی تھی ۔۔ ساتھ ساتھ تف بر تُو کی تکرار کرتا رہا تھا۔۔۔
زندگی انسان کو وہ وہ لمحات دکھاتی ہے جب انسان جھنجھلا جاتا ہے اس کے اعصاب چٹخ جاتے ہیں ، کیفیات مکدر اور احساس درک جاتے ہیں ۔۔
حواس باختگی کے عمل میں کیفیات کو اظہار کے سانچے میں ڈھلنے کے لیے لفظیات کی محتاجگی نہیں رہتی ہےیہی اظہار کا خاصہ ہوتا ہے ۔
میں نے تو سماعت کی تھی مگر قراءت نہ کرسکا تھا۔ محفل میں جب آپ نے غزل پیش کی تو میں سفر میں تھا۔
جو جو مجھے کہنا تھا وہ غزل
( غزل ناز غزل ) نے غزل کی داخلی واردات پر اپنی اور میری اجتمائی رائے کی صورت میں کمال اہتمام اور تفصیل سے کہ دیا ہے ۔
یہ غزل کا بڑا پن اور انکسار ہے کہ اس نے مجھے یوں دعوت دی ، حق یہی ہے جو غزل نے یہاں اپنی اور میری نمائندگی کرتے ہوئے کہہ دیا ہے ۔
میں مزید کیا اضافہ کرسکوں گا کہ خود کو لفظ کے بارے میں محتاج دیکھتا ہوں ۔
داخلی واردات پر منتج یہ غزل اپنے دامن میں تمام تر رعنائیاں ، تمام تر کسک ، تمام تر شکست و ریخت کی کائنات کو سموئے ہوئے ہے ۔۔ ۔۔۔
جب ہرن کو کتے دشت میں گھیر لیتے ہیں تو اس کی آنکھ میں ایک عجیب سی لکیر نمودار ہوجاتی ہے ۔۔
پھر ہرن ایک فلک شگاف چیخ مارتا ہے ۔۔ ایسی کہ سگانِ دشت خوفزدہ ہوجاتے ہیں ،
یہی غزل کی تعریف ہے یہی آپ کی غزل کا حاصل ہے ۔ سخت مشکل امر ہے کہ لخت ِ دل پر واہ واہ کی جائے ۔۔
یہ شاعر کا ہی حوصلہ ہوتا ہے کہ وہ اپنا زخم قارئین اور سامعین کے چٹخارے کے لیے پیش کرتا ہے ۔
اور لذت کے چسکوکے بھرتا ہے ۔۔۔ آ ہ ہ ۔۔۔ ۔
فاتح بھائی ۔۔۔ ۔۔
ایک بار پھر میری اور غزل
( غزل ناز غزل ) کی جانب سے اس اظہار پر حوصلگی کے ساتھ ساتھ ہدیہ تحسین و تبریک پیش ہے
گر قبول افتد زہے عزو شرف