غزل: جس کی خاطر خود میں اپنے آپ سے کٹتا رہا

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت شکریہ ظہیر بھائی ... داد و پذیرائی کے لیے سپاس گزار ہوں.
آپ نے ہماری چوری خوب پکڑی ہے :)
آپ نے بالکل بجا فرمایا ہے، درست تلفظ ویسے ہی ہے جیسا کہ آپ نے بتایا ... جس زمانے کی یہ غزل ہے، تب میں واقعی درست تلفظ سے واقف نہیں تھا ... جب اندازہ ہوا تب تک اتنا وقت گزر چکا تھا کہ ہم نے "ڈبل اے استاد، جانے دوس" پر اکتفا کرنا مناسب سمجھا :)

عوامی تلفظ تو اس کا بر وزن فاعلن ہی کیا جاتا ہے یعنی لام ساکن کے ساتھ ۔ اس پر انور مقصود کا ایک بہت پرانا جملہ یاد آگیا ۔ کہہ رہے تھے کہ عربی میں میاں کو " ال - میہ" کہتے ہیں ۔
اکثر بیگمات کو انور مقصود کا صرف یہی ایک جملہ یاد ہوتا ہے اور بوقتِ ضرورت دہرادیتی ہیں ۔۔۔۔ یعنی تقریباً ہر روز۔ :):):)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
تسکین اوسط ہمیں بے تسکین کر دیتی ہے اس لیے ہم ایسی مشکل ابحاث سے دور ہی رہتے ہیں :)

لیکن اہل اردو کو اس کا کچھ قاعدہ بنانا چاہیے ... کم از کم جمع بنانے کے لیے ... نظر سے نظریں بنائیں تو ظ ساکن کرنے کی اجازت ہے ... غلطی سے غلطیاں ہوجائیں تو ل بیچارے کو ایکسرسائز کرنا پڑتی ہے :)
قاعدہ تو بنایا ہوا ہے ، راحل بھائی۔ الف سے انار ۔ ۔۔ ۔ ب سے بکری ۔۔۔۔
اب اور کیا قاعدہ بنائیں۔ لگتا ہے آپ کو سہل پسندی پسند نہیں ہے ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
راحل بھائی ، کبھی وقت ملے تو خرطوم کے بارے میں کچھ لکھئے گا۔یعنی وہاں کی اردو کمیونٹی کے بارے میں ۔ کس قسم کی سرگرمیاں ہوتی ہیں ، کیا کھاتے پیتے اور پہنتے اوڑھتے ہیں وغیرہ ۔ مسجد میں کیا ماحول ہوتا ہے؟ کوئی تصویر وغیرہ بھی ہو تو لگائیے گا ۔ میں کبھی سوڈان نہیں گیا لیکن ایک دو سوڈانی مسلمانوں سے اچھی خاصی دعا سلام رہی ماضی میں ۔ بس ویسے ہی کچھ جاننے کا شوق ہوتا ہے ۔
 
راحل بھائی ، کبھی وقت ملے تو خرطوم کے بارے میں کچھ لکھئے گا۔یعنی وہاں کی اردو کمیونٹی کے بارے میں ۔ کس قسم کی سرگرمیاں ہوتی ہیں ، کیا کھاتے پیتے اور پہنتے اوڑھتے ہیں وغیرہ ۔ مسجد میں کیا ماحول ہوتا ہے؟ کوئی تصویر وغیرہ بھی ہو تو لگائیے گا ۔
جی ضرور ... ان شاء اللہ
 
یہاں گرمیاں ختم ہوں تو سرگرمیوں کے بارے میں سوچیں ... اس سال بڑی سخت گرمی پڑ رہی ہے ... درجہ حرارت 46-45 تک جا رہا ہے، اور ایسا لگتا ہے جیسے رات میں بھی لو چل رہی ہو!
انٹر میں اردو کے ٹیچر جب صنائع سخن پڑھا رہے تھے تو مبالغہ کے ضمن میں میر انیس کے مرثیہ کی مثال دی
وہ لو، وہ آفتاب کی حدت وہ تاب و تب
کالا تھا رنگ دھوپ سے دن کا مثال شب

بس ان دنوں کچھ ایسی ہی صورتحال ہے ... چار سال میں پہلی بار اتنی شدید اور طویل گرمی کی لہر آئی ہے.
 

سید عاطف علی

لائبریرین
راحل بھائی ، کبھی وقت ملے تو خرطوم کے بارے میں کچھ لکھئے گا۔یعنی وہاں کی اردو کمیونٹی کے بارے میں ۔ کس قسم کی سرگرمیاں ہوتی ہیں ، کیا کھاتے پیتے اور پہنتے اوڑھتے ہیں وغیرہ ۔ مسجد میں کیا ماحول ہوتا ہے؟ کوئی تصویر وغیرہ بھی ہو تو لگائیے گا ۔ میں کبھی سوڈان نہیں گیا لیکن ایک دو سوڈانی مسلمانوں سے اچھی خاصی دعا سلام رہی ماضی میں ۔ بس ویسے ہی کچھ جاننے کا شوق ہوتا ہے ۔
ظہیر بھائی ! سودان کے نام پر بر سبیل تذکرہ ایک واقعہ یاد آیا ۔
میرے کمپنی میں کئی سوڈانی دوست رہے ااور اب بھی ہیں ۔میرے تجربات کے مطابق ان سوڈانیوں کی اکثریت بھلے بے ضرر اور سیدھے سادے مزاج کی حامل ہوتی ہے ۔ مجھے شروع کے ایام میں کمپنی کے رہائشی ایک مکان میں ابتدائی ایک سال ان سب سوڈا نی دوستوں کے ساتھ رہنے کا اتفاق ہوا ۔ اس وقت مروجہ عوامی عربی تو بلکل ہی نہیں آتی تھی اور اس پر طرہ یہ کہ متنوع عرب لہجات جو مختلف اقوام میں بہت مختلف حد تک رائج تھیں، ان کا بھی بالکل اندازہ نہ تھا۔کیوں کہ اکثر انجینئر بھی تھے تو ہم انگریزی سے کام چلاتے تھے ۔ لیکن ہوا یوں کہ سوڈانی دوستوں کے ساتھ ساتھ رہ کر کافی ایسے الفاظ و انداز بھی سیکھ گیا جو عربی ہونے کے ساتھ ساتھ خالص سوڈانی سگنیچر رکھتے تھے ۔ جیسے یہ لوگ لفظ زول انسان کے لیے بولتے ہیں لیکن صرف اور صرف سوڈانیوں میں ۔ شاید سوڈان ہی کا ایک چینل بھی ہے زول ٹی وی ۔
کئی برس ہوئے ایک مرتبہ، بچیوں کے سکول کی کسی دستاویزات کی فوٹو کاپی کی ضرورت تھی اور میرے ساتھ میری اکلوتی زوجہ محترمہ بھی تھیں ۔ہمارے محلے میں ایک فوٹو کاپی کی دکان کا دکاندار سوڈانی تھا ۔صفحات کچھ زیادہ تھے تو میں نے کچھ گپ شپ کے دوران ان سگنیچری خطوط کو کثرت سے استعمال کیا جس سے وہ خوب محظوظ ہوتا رہا ۔ حساب کرتے ہوئے میری زوجہ محترمہ کو کہنے لگا کہ تم اس کی تحقیق کرو اس کی یقینا کوئی سوڈانی بیوی بھی ہو گی ۔ زوجہ محترمہ جو ایک شرمیلی خاتون خانہ ہیں اس کی بات سمجھنے کے لیے مجھ پر انحصار کرنے پر مجبور تھیں ۔ سو کچھ مسئلہ پیدا نہ ہوا۔البتہ یہ بات یقینا قابل ذکر ہے کہ سوڈانی دکاندار کا پیغام زوجہ محترمہ تک پہنچانے میں میں نے کوئی خیانت نہ کی تھی ۔ اس واقعے سے میں اور زوجہ محترمہ بھی خوب محظوظ ہوئے ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
یہاں گرمیاں ختم ہوں تو سرگرمیوں کے بارے میں سوچیں ... اس سال بڑی سخت گرمی پڑ رہی ہے ... درجہ حرارت 46-45 تک جا رہا ہے، اور ایسا لگتا ہے جیسے رات میں بھی لو چل رہی ہو!
یا اللہ خیر !
کیا ابھی سے خرطوم میں پینتالیس تک پارہ چڑھ چکا ہے ؟
 
ظہیر بھائی ! سودان کے نام پر بر سبیل تذکرہ ایک واقعہ یاد آیا ۔
میرے کمپنی میں کئی سوڈانی دوست رہے ااور اب بھی ہیں ۔میرے تجربات کے مطابق ان سوڈانیوں کی اکثریت بھلے بے ضرر اور سیدھے سادے مزاج کی حامل ہوتی ہے ۔ مجھے شروع کے ایام میں کمپنی کے رہائشی ایک مکان میں ابتدائی ایک سال ان سب سوڈا نی دوستوں کے ساتھ رہنے کا اتفاق ہوا ۔ اس وقت مروجہ عوامی عربی تو بلکل ہی نہیں آتی تھی اور اس پر طرہ یہ کہ متنوع عرب لہجات جو مختلف اقوام میں بہت مختلف حد تک رائج تھیں، ان کا بھی بالکل اندازہ نہ تھا۔کیوں کہ اکثر انجینئر بھی تھے تو ہم انگریزی سے کام چلاتے تھے ۔ لیکن ہوا یوں کہ سوڈانی دوستوں کے ساتھ ساتھ رہ کر کافی ایسے الفاظ و انداز بھی سیکھ گیا جو عربی ہونے کے ساتھ ساتھ خالص سوڈانی سگنیچر رکھتے تھے ۔ جیسے یہ لوگ لفظ زول انسان کے لیے بولتے ہیں لیکن صرف اور صرف سوڈانیوں میں ۔ شاید سوڈان ہی کا ایک چینل بھی ہے زول ٹی وی ۔
کئی برس ہوئے ایک مرتبہ، بچیوں کے سکول کی کسی دستاویزات کی فوٹو کاپی کی ضرورت تھی اور میرے ساتھ میری اکلوتی زوجہ محترمہ بھی تھیں ۔ہمارے محلے میں ایک فوٹو کاپی کی دکان کا دکاندار سوڈانی تھا ۔صفحات کچھ زیادہ تھے تو میں نے کچھ گپ شپ کے دوران ان سگنیچری خطوط کو کثرت سے استعمال کیا جس سے وہ خوب محظوظ ہوتا رہا ۔ حساب کرتے ہوئے میری زوجہ محترمہ کو کہنے لگا کہ تم اس کی تحقیق کرو اس کی یقینا کوئی سوڈانی بیوی بھی ہو گی ۔ زوجہ محترمہ جو ایک شرمیلی خاتون خانہ ہیں اس کی بات سمجھنے کے لیے مجھ پر انحصار کرنے پر مجبور تھیں ۔ سو کچھ مسئلہ پیدا نہ ہوا۔البتہ یہ بات یقینا قابل ذکر ہے کہ سوڈانی دکاندار کا پیغام زوجہ محترمہ تک پہنچانے میں میں نے کوئی خیانت نہ کی تھی ۔ اس واقعے سے میں اور زوجہ محترمہ بھی خوب محظوظ ہوئے ۔
فصحی اور مقامی لہجات کا فرق واقعی بہت مشکل پیدا کرتا ہے. ہم نے عربی کا کورس کیا سوڈان اوپن یونیورسٹی سے تو فصحی ہی سکھائی گئی ... جو 90 فیصد کیسز میں کسی کام کی نہیں ہوتی ... گو کہ میں نے ممتاز درجے میں کورس پاس کیا مگر استعمال نہ ہونے کی وجہ سے اب بھولنے لگا ہوں. سب سے بڑا شاک تو مجھے ق کے معاملے میں لگا :)
شروع شروع میں جب ڈرائیونگ لائسنس نہیں بنا تھا تو ایک بار ایک رکشے والے سے پوچھا "ھل تذھب الی فلان" ... رکشے والا بیچارہ ہماری گلابی عربی پر قہقہے لگاتا رہ گیا :)
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ہم نے عربی کا کورس کیا
اس وقت مروجہ عوامی عربی تو بلکل ہی نہیں آتی تھی
متحدہ عرب امارات میں تو معاملہ ہی کچھ اور ہے یہاں پر ہمارے ہاں سے یعنی پاکستان بھارت یا بنگلہ دیش سے آنے والوں کو عربی بول چال کی کچھ خاص حاجت نہیں ہوتی، کسی وقتوں کے ایک سروے کے مطابق یہاں پر صرف پندرہ فی صد لوکل تھے اور لیبر میں تو اکثریت ہمارے برصغیر کے ہی لوگ ملیں گے، یہاں پر میں ایک عربی سے ملا جو چند مخصوص لہجوں کے علاوہ بالکل ٹھیک ٹھیک اردو بول رہا تھا
 
متحدہ عرب امارات میں تو معاملہ ہی کچھ اور ہے یہاں پر ہمارے ہاں سے یعنی پاکستان بھارت یا بنگلہ دیش سے آنے والوں کو عربی بول چال کی کچھ خاص حاجت نہیں ہوتی، کسی وقتوں کے ایک سروے کے مطابق یہاں پر صرف پندرہ فی صد لوکل تھے اور لیبر میں تو اکثریت ہمارے برصغیر کے ہی لوگ ملیں گے، یہاں پر میں ایک عربی سے ملا جو چند مخصوص لہجوں کے علاوہ بالکل ٹھیک ٹھیک اردو بول رہا تھا
امارات میں تو اکثر مقامی اچھی خاصی اردو بول لیتے ہیں ۔۔۔ میرے بڑے بھائی کچھ سال قبل امارات میں مقیم تھے، ان کا ایک اماراتی کولیگ تھا جو بہت روانی سے اردو بول لیتا تھا ۔۔۔
دو سال پہلے میرا فیملی کے ساتھ جانا ہوا ۔۔۔ ایک مال کی پارکنگ میں ٹیکسی کے لیے کھڑے ہوئے تھے، ویک اینڈ کی وجہ سے رش بہت تھا ۔۔۔ اتنے میں ایک اماراتی سپروائزر آیا اور بالکل صاف اردو میں بولنے لگا کہ بھائی صاب تمہیں یہاں سے ٹیکسی نہیں ملے گی، چلو میرے ساتھ میں دلواتا ہوں :)
اسی طرح جب میں پہلی بار دبئی گیا تھا ۲۰۰۹ میں تو ایئرپورٹ پر ایک اماراتی آفیسر سے انگریزی میں کچھ پوچھا تو موصوف نے جواب اردو میں دیا :)
 

یاسر شاہ

محفلین
یہاں گرمیاں ختم ہوں تو سرگرمیوں کے بارے میں سوچیں ... اس سال بڑی سخت گرمی پڑ رہی ہے ... درجہ حرارت 46-45 تک جا رہا ہے، اور ایسا لگتا ہے جیسے رات میں بھی لو چل رہی ہو!
انٹر میں اردو کے ٹیچر جب صنائع سخن پڑھا رہے تھے تو مبالغہ کے ضمن میں میر انیس کے مرثیہ کی مثال دی
وہ لو، وہ آفتاب کی حدت وہ تاب و تب
کالا تھا رنگ دھوپ سے دن کا مثال شب
اکبر الہ آبادی نے بھی کیا خوب کہا ہے :
پڑ جائیں ابھی آبلے اکبر کے بدن پر
پڑھ کر جو کوئی پھونک دے اپریل مئی جون:)
 
عزیزانِ گرامی، آداب!
ایک پرانی غزل آپ سب کے ذوق کی نذر۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف۔

دعاگو،
راحلؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جس کی خاطر خود میں اپنے آپ سے کٹتا رہا
اس کو پھر بھی بے وفائی کا مری خدشہ رہا

تیری یادوں کی چٹانیں اب کہاں ویسی رہیں!
وقت کا دریا کبھی ٹھہرا نہیں، بہتا رہا

بس جھکایا تھا خدا کے سامنے اک بار سر
پھر زمانہ عمر بھر آگے مرے جھکتا رہا

میں تو دل پر نقش کر بیٹھا ہوں بیتے سارے پَل
وہ ہمیشہ پانیوں پر ڈائری لکھتا رہا

المیہ یہ ہے کہ اوجِ عشق کو چھونے کے بعد
میں محبت کے سفر میں عمر بھر تنہا رہا!

تیرے عارض سے ڈھلکتے موتیوں کو دیکھ کر
اہلِ عالم سے یہ راحلؔ مدتوں لڑتا رہا

راحل صاحب ، سلام عرض ہے!

بہت عمدہ غزل ہے، بھائی . داد حاضر ہے!

لفظ المیہ پر احباب كے خطوط نگاہ سے گزرے تو سوچا میں بھی اپنے دو سینٹس ڈال دوں . شاید کسی کام آ جا ئیں . :)

المیہ کو میں نے لام ساکن اور میم ساکن كے ساتھ نظم دیکھا ہے، مثلاً:

ہمارا المیہ یہ تھا کہ ہم سفر بھی ہمیں
وہی ملے جو بہت یاد آنے والے تھے (وسیمؔ بریلوی)

نظر کی موت اِک تازہ المیہ
اور اِتنے میں نظارہ مر رہا ہے (عبد الاحد سازؔ)

لیکن پَہلے چار حروف متحرّک یا ی مشدّد کے ساتھ اس لفظ کے استعمال کی میری دانست میں کوئی مثال نہیں ہے .

تَسکين اوسط کی بابت آپ کا یہ قول بجا ہے کہ اس کے قواعد میں صفائی کی گنجائش ہے . میں نے دیکھا ہے کہ اب اردو الفاظ یعنی جمع میں تَسکين اوسط کے اِستَعمال میں شعراء روایت سے انحراف کرنے لگے ہیں مثلاً اس شعر میں’غلطیوں‘ میں لام کو ساکن باندھا گیا ہے:

گمنام ہو گیا ہے تو اپنی ہی بزم میں
کن غلطیوں کی ہے یہ سزا، احتساب کر (احیاؔ بھوجپوری)

جب كہ بيشتر شعراء ’غلطيوں‘ يا ’غلطياں‘ ميں لام كو متحرّك باندھتے ہيں مثلاً:

غلطياں اگلے وقتوں سے ہوئی ہيں
مگر صديوں سے ہم پچهتا رہے ہيں (ظفرؔ صہبائی)

اردو الفاظ كو چهوڑيے، عربي اور فارسي الفاظ ميں بهي تسكين اوسط كا استعمال روايت سے ہٹ كر ہوا ہے اور ہو رہا ہے مثلاً اس شعر ميں ’حركت‘ ميں ر كو ساكن باندها گيا ہے:

تجھ میں پڑا ہوا ہوں حرکت نہیں ہے مجھ میں
حالت نہ پوچھیو تو حالت نہیں ہے مجھ میں (جون ایلیا)

جب كہ اساتذہ نے ’حركت‘ ميں ر كو ہميشہ متحرّك باندھا ہے مثلاً:

ہے کائنات کو حرکت تیرے ذوق سے
پرتو سے آفتاب کے ذرّے میں جان ہے (غالبؔ)

غرض یہ کہ چونکہ تَسکين اوسط کے اصول پُوری طرح واضح نہیں ہیں، شعراء نے اپنا راستہ خود نکالنا شُرُوع کر دیا ہے .

نیٓازمند،
عرفان عابدؔ
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
المیہ کو میں نے لام ساکن اور میم ساکن كے ساتھ نظم دیکھا ہے، مثلاً:
ہمارا المیہ یہ تھا کہ ہم سفر بھی ہمیں
وہی ملے جو بہت یاد آنے والے تھے (وسیمؔ بریلوی)

نظر کی موت اِک تازہ المیہ
اور اِتنے میں نظارہ مر رہا ہے (عبد الاحد سازؔ)

تَسکين اوسط کی بابت آپ کا یہ قول بجا ہے کہ اس کے قواعد میں صفائی کی گنجائش ہے . میں نے دیکھا ہے کہ اب اردو الفاظ یعنی جمع میں تَسکين اوسط کے اِستَعمال میں شعراء روایت سے انحراف کرنے لگے ہیں مثلاً اس شعر میں’غلطیوں‘ میں لام کو ساکن باندھا گیا ہے:

اردو الفاظ كو چهوڑيے، عربي اور فارسي الفاظ ميں بهي تسكين اوسط كا استعمال روايت سے ہٹ كر ہوا ہے اور ہو رہا ہے مثلاً اس شعر ميں ’حركت‘ ميں ر كو ساكن باندها گيا ہے:

غرض یہ کہ چونکہ تَسکين اوسط کے اصول پُوری طرح واضح نہیں ہیں، شعراء نے اپنا راستہ خود نکالنا شُرُوع کر دیا ہے .

علوی صاحب ، معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ سید عاطف علی بھائی کے ایک مبہم مراسلے نے اس گفتگو کا رخ ایک غلط سمت میں موڑ دیا ۔ اس سے پہلے کہ مزید خلط مبحث ہو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر گفتگو کو درست رخ دے دیا جائے ۔ عاطف بھائی نے اوپر جو بات تسکینِ اوسط اور "تحریکِ اوسط" کے حوالے سے لکھی تھی وہ اردو الفاظ کے ملفوظی قوانین میں موجود داخلی تضادات پر ایک نیم سنجیدہ سا تبصرہ تھا ۔

المیہ کے تلفظ کی بحث لغوی اور صرفی مسئلہ ہے اور اس کا عروض سے قطعی کوئی تعلق نہیں ہے ۔ جبکہ تسکینِ اوسط ایک عروضی اصطلاح ہے اور عروضی افاعیل کے ضمن میں استعمال ہوتی ہے ۔ یعنی کسی بحر میں کسی جگہ افاعیل کی ترتیب اگر ایسی بن جائے کہ وہاں تین حروف متواتر متحرک ہوں تو درمیانی حرف کو ساکن کردینے کو تسکینِ اوسط کہتے ہیں ۔ تسکینِ اوسط کو ایک طرح کا زحاف سمجھ لیجئے۔ (جیسے مفعول مفاعیلُ مفاعیلُ فعولن کو مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن میں اور مُتَفاعلن کو مُستَفعلن میں تبدیل کردیا جاتا ہے ۔ وغیرہ)

تسکینِ اوسط صرف افاعیل پر استعمال ہوتی ہے ، اردو کے الفاظ پر اس کا اطلاق نہیں کیا جاتا ۔ یعنی عروض سے باہر اسے صرفی اصول کے طور پر استعمال نہیں کیا جاسکتا ۔ چنانچہ اگر کسی اردو لفظ میں تین متواتر متحرک حروف آتے ہیں تو وہ ہمیشہ متحرک ہی رہیں گے ۔ ان میں سے کسی بھی حرف کو اپنی مرضی سے ساکن نہیں کیا جاسکتا ۔ خُلَفا کو خُل۔فا یا شُعَرا کو شُع۔را نہیں بنایا جاسکتا ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ یعنی شعری ضرورت کے تحت کسی لفظ کا تلفظ ہرگز تبدیل نہیں کیا جاسکتا ۔
بدقسمتی سے اردو کے علم الصرف میں قاعدے قانون کم اور مستثنیات زیادہ ہیں ۔ چونکہ زیادہ تر اردو الفاظ تین زبانوں یعنی ہندی ، فارسی اور عربی سے آئے ہیں اس لئے ان سے اشتقاق کے قواعد بھی متنوع ہیں ۔ خصوصاً عربی الفاظ کا تلفظ کسی لگے بندھے قاعدے کے تحت نہیں ہے بلکہ جس طرح ان کا رواج پڑگیا اور جس طرح کا تلفظ چلن میں آگیا وہی مستند اور فصیح ٹھہرا ۔

اس وضاحت کے بعد اب اصل سوال یہ باقی رہا کہ المیہ کا درست تلفظ کیا ہے ۔ المیہ کا لفظ نوراللغات اور فرہنگِ آصفیہ میں تو موجود نہیں ہے ( یہ لغات شاید اس لفظ کی پیدائش سے پہلے مدون کی گئی تھیں) ۔البتہ فیروزاللغات (طبع اول ۱۸۹۷) ، فرہنگِ عامرہ (طبع اول ۱۹۳۷) ، مقتدرہ کی لغت کبیر اور شان الحق حقی کی فرہنِگ تلفظ میں اس کا تلفظ لام متحرک کے ساتھ ہے ۔ فیروزاللغات ، فرہنگِ عامرہ اور فرہنگِ تلفظ تینوں نے "ی" کو مشدد لکھا ہے جبکہ لغت کبیر نے مشدد اور غیر مشدد دونوں کو درست بتایا ہے ۔ لیکن کسی بھی لغت نے لام ساکن کے ساتھ نہیں لکھا ۔ المیہ کا لفظ مجھے کسی استاد شاعر کے ہاں نہیں ملا سو اس صورت میں مندرجہ بالا معتبر اور مستند لغات پر اعتبار نہ کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ۔ (ویسے شان الحق حقی جیسے ماہرِ لسانیات کے تلفظ کا اعتبار میرے نزدیک استاد شعرا سے کم نہیں ) ۔ المیہ جیسا کہ ظاہر ہے اَلَم سے مشتق ہے ۔ عام مشاہدہ یہی ہے کہ عربی الفاظ کے آگے حروف زیادہ کرکے نیا لفظ بنانے کی صورت میں اصل لفظ کا عموماً تلفظ برقرار رہتا ہے ۔ اصل لفظ کے تلفظ میں شاذ و نادر ہی تغیر واقع ہوتا ہے ۔
باقی رہی وسیم بریلوی اور عبدالاحد ساز کے اشعار کی مثالیں تو عرض یہ ہے کہ ان کے اشعار سند نہیں ہیں اور مستند لغات کے خلاف ہیں ۔ اس لئے انہیں خطا کہا جائے گا جیسا کہ راحل بھائی کے شعر کے متعلق کہا گیا ۔ :):):)
 
راحل صاحب ، سلام عرض ہے!

بہت عمدہ غزل ہے، بھائی . داد حاضر ہے!

لفظ المیہ پر احباب كے خطوط نگاہ سے گزرے تو سوچا میں بھی اپنے دو سینٹس ڈال دوں . شاید کسی کام آ جا ئیں . :)

المیہ کو میں نے لام ساکن اور میم ساکن كے ساتھ نظم دیکھا ہے، مثلاً:

ہمارا المیہ یہ تھا کہ ہم سفر بھی ہمیں
وہی ملے جو بہت یاد آنے والے تھے (وسیمؔ بریلوی)

نظر کی موت اِک تازہ المیہ
اور اِتنے میں نظارہ مر رہا ہے (عبد الاحد سازؔ)

لیکن پَہلے چار حروف متحرّک یا ی مشدّد کے ساتھ اس لفظ کے استعمال کی میری دانست میں کوئی مثال نہیں ہے .

تَسکين اوسط کی بابت آپ کا یہ قول بجا ہے کہ اس کے قواعد میں صفائی کی گنجائش ہے . میں نے دیکھا ہے کہ اب اردو الفاظ یعنی جمع میں تَسکين اوسط کے اِستَعمال میں شعراء روایت سے انحراف کرنے لگے ہیں مثلاً اس شعر میں’غلطیوں‘ میں لام کو ساکن باندھا گیا ہے:

گمنام ہو گیا ہے تو اپنی ہی بزم میں
کن غلطیوں کی ہے یہ سزا، احتساب کر (احیاؔ بھوجپوری)

جب كہ بيشتر شعراء ’غلطيوں‘ يا ’غلطياں‘ ميں لام كو متحرّك باندھتے ہيں مثلاً:

غلطياں اگلے وقتوں سے ہوئی ہيں
مگر صديوں سے ہم پچهتا رہے ہيں (ظفرؔ صہبائی)

اردو الفاظ كو چهوڑيے، عربي اور فارسي الفاظ ميں بهي تسكين اوسط كا استعمال روايت سے ہٹ كر ہوا ہے اور ہو رہا ہے مثلاً اس شعر ميں ’حركت‘ ميں ر كو ساكن باندها گيا ہے:

تجھ میں پڑا ہوا ہوں حرکت نہیں ہے مجھ میں
حالت نہ پوچھیو تو حالت نہیں ہے مجھ میں (جون ایلیا)

جب كہ اساتذہ نے ’حركت‘ ميں ر كو ہميشہ متحرّك باندھا ہے مثلاً:

ہے کائنات کو حرکت تیرے ذوق سے
پرتو سے آفتاب کے ذرّے میں جان ہے (غالبؔ)

غرض یہ کہ چونکہ تَسکين اوسط کے اصول پُوری طرح واضح نہیں ہیں، شعراء نے اپنا راستہ خود نکالنا شُرُوع کر دیا ہے .

نیٓازمند،
عرفان عابدؔ
مکرمی عرفانؔ بھائی ۔۔۔ آداب
کل جب آپ کا مراسلہ دیکھا تو کسی کام میں مصروف تھا، اس لیے بروقت جواب نہ دے سکا ۔۔۔ صبح دیکھا تو قبلہ ظہیرؔ بھائی نے نہایت عمدہ مراسلہ اس حوالے سے بھیج رکھا تھا، جس کے بعد زیادہ کچھ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
تسکینِ اوسط کی بابت تو قبلہ و استاذی سرورؔ صاحب سے ان کی اردو انجمن کے دنوں میں ہی یہ معلوم ہو چکا تھا کہ یہ محض زحافات بنانے کا ایک کلیہ ہے ۔۔۔ یہ بحث ایک شاعر کے ’’نَظَرِ کرم‘‘ کو ’’نَظْرِ کرم‘‘ باندھنے سے شروع ہوئی تھی جس کے جواز کے لیے انہوں نے تسکین اوسط کا حوالہ دیا تھا ۔۔۔ ان کے اس دعوے کے رد میں قبلہ نے ایک مفصل مراسلہ لکھا تھا، جسے بعد میں مضمون کی شکل میں اپنی ویب سائٹ پر بھی لگایا۔
میرا اشارہ تو بس لگاتار تین متحرک حروف والے عربی الاصل الفاظ کی اردو کے قاعدے پر جمع بنانے کی طرف تھا کہ بظاہر اس کا کوئی اصول نظر نہیں آتا کہ کہیں درمیانی حرف کو ساکن کردیتے ہیں اور کہیں نہیں ۔۔۔
میری اتنی حیثیت تو نہیں کہ ایسے معاملات میں اپنی رائے پیش کرسکوں لیکن میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اس طرح کے الفاظ کی اردو قاعدے پر جمع بناتے ہوئے درمیانی حرف کو ساکن بولنا اردو کے مزاج سے زیادہ ہم آہنگ معلوم ہوتا ہے۔ تاہم اس غزل میں المیہ کے تلفظ کی غلطی کوئی ’’اجتہادی‘‘ غلطی نہیں ۔۔۔ بلکہ میری درست تلفظ سے ناواقفیت کی بنا پر تھی، جسے میں نے بس اپنی متساہل طبیعت کے طفیل یونہی رہنے دیا :)
 
علوی صاحب ، معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ سید عاطف علی بھائی کے ایک مبہم مراسلے نے اس گفتگو کا رخ ایک غلط سمت میں موڑ دیا ۔ اس سے پہلے کہ مزید خلط مبحث ہو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر گفتگو کو درست رخ دے دیا جائے ۔ عاطف بھائی نے اوپر جو بات تسکینِ اوسط اور "تحریکِ اوسط" کے حوالے سے لکھی تھی وہ اردو الفاظ کے ملفوظی قوانین میں موجود داخلی تضادات پر ایک نیم سنجیدہ سا تبصرہ تھا ۔

المیہ کے تلفظ کی بحث لغوی اور صرفی مسئلہ ہے اور اس کا عروض سے قطعی کوئی تعلق نہیں ہے ۔ جبکہ تسکینِ اوسط ایک عروضی اصطلاح ہے اور عروضی افاعیل کے ضمن میں استعمال ہوتی ہے ۔ یعنی کسی بحر میں کسی جگہ افاعیل کی ترتیب اگر ایسی بن جائے کہ وہاں تین حروف متواتر متحرک ہوں تو درمیانی حرف کو ساکن کردینے کو تسکینِ اوسط کہتے ہیں ۔ تسکینِ اوسط کو ایک طرح کا زحاف سمجھ لیجئے۔ (جیسے مفعول مفاعیلُ مفاعیلُ فعولن کو مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن میں اور مُتَفاعلن کو مُستَفعلن میں تبدیل کردیا جاتا ہے ۔ وغیرہ)

تسکینِ اوسط صرف افاعیل پر استعمال ہوتی ہے ، اردو کے الفاظ پر اس کا اطلاق نہیں کیا جاتا ۔ یعنی عروض سے باہر اسے صرفی اصول کے طور پر استعمال نہیں کیا جاسکتا ۔ چنانچہ اگر کسی اردو لفظ میں تین متواتر متحرک حروف آتے ہیں تو وہ ہمیشہ متحرک ہی رہیں گے ۔ ان میں سے کسی بھی حرف کو اپنی مرضی سے ساکن نہیں کیا جاسکتا ۔ خُلَفا کو خُل۔فا یا شُعَرا کو شُع۔را نہیں بنایا جاسکتا ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ یعنی شعری ضرورت کے تحت کسی لفظ کا تلفظ ہرگز تبدیل نہیں کیا جاسکتا ۔
بدقسمتی سے اردو کے علم الصرف میں قاعدے قانون کم اور مستثنیات زیادہ ہیں ۔ چونکہ زیادہ تر اردو الفاظ تین زبانوں یعنی ہندی ، فارسی اور عربی سے آئے ہیں اس لئے ان سے اشتقاق کے قواعد بھی متنوع ہیں ۔ خصوصاً عربی الفاظ کا تلفظ کسی لگے بندھے قاعدے کے تحت نہیں ہے بلکہ جس طرح ان کا رواج پڑگیا اور جس طرح کا تلفظ چلن میں آگیا وہی مستند اور فصیح ٹھہرا ۔

اس وضاحت کے بعد اب اصل سوال یہ باقی رہا کہ المیہ کا درست تلفظ کیا ہے ۔ المیہ کا لفظ نوراللغات اور فرہنگِ آصفیہ میں تو موجود نہیں ہے ( یہ لغات شاید اس لفظ کی پیدائش سے پہلے مدون کی گئی تھیں) ۔البتہ فیروزاللغات (طبع اول ۱۸۹۷) ، فرہنگِ عامرہ (طبع اول ۱۹۳۷) ، مقتدرہ کی لغت کبیر اور شان الحق حقی کی فرہنِگ تلفظ میں اس کا تلفظ لام متحرک کے ساتھ ہے ۔ فیروزاللغات ، فرہنگِ عامرہ اور فرہنگِ تلفظ تینوں نے "ی" کو مشدد لکھا ہے جبکہ لغت کبیر نے مشدد اور غیر مشدد دونوں کو درست بتایا ہے ۔ لیکن کسی بھی لغت نے لام ساکن کے ساتھ نہیں لکھا ۔ المیہ کا لفظ مجھے کسی استاد شاعر کے ہاں نہیں ملا سو اس صورت میں مندرجہ بالا معتبر اور مستند لغات پر اعتبار نہ کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ۔ (ویسے شان الحق حقی جیسے ماہرِ لسانیات کے تلفظ کا اعتبار میرے نزدیک استاد شعرا سے کم نہیں ) ۔ المیہ جیسا کہ ظاہر ہے اَلَم سے مشتق ہے ۔ عام مشاہدہ یہی ہے کہ عربی الفاظ کے آگے حروف زیادہ کرکے نیا لفظ بنانے کی صورت میں اصل لفظ کا عموماً تلفظ برقرار رہتا ہے ۔ اصل لفظ کے تلفظ میں شاذ و نادر ہی تغیر واقع ہوتا ہے ۔
باقی رہی وسیم بریلوی اور عبدالاحد ساز کے اشعار کی مثالیں تو عرض یہ ہے کہ ان کے اشعار سند نہیں ہیں اور مستند لغات کے خلاف ہیں ۔ اس لئے انہیں خطا کہا جائے گا جیسا کہ راحل بھائی کے شعر کے متعلق کہا گیا ۔ :):):)
ظہیر بھائی، آپ كے تفصیلی خط کا تہہ دِل سے شکریہ! میں آپ کی باتوں سے متفق ہوں . مجھے تسکین اوسط كے اوزان میں استعمال کا علم ہے . لیکن اب اِس کا استعمال عام طور پر الفاظ كے تلفظ میں بھی ہو رہا ہے اور لوگ یہی سیکھ اور سکھا رہے ہیں . میں خود الفاظ کو ان كے اصل تلفظ كے ساتھ ہی نظم کرتا ہوں، لیکن میں متبادل تلفظ کی مخالفت نہیں کرتا . ہاں، یہ اشارہ ضرور کر دیتا ہوں کہ اساتذہ كے یہاں ایسا استعمال نہیں ملتا . مجھے لگا کہ اِس گفتگو میں شامل کچھ احباب الفاظ كے تلفظ میں تسکین اوسط كے استعمال كے حامی ہیں، لیکن آپ كے خط سے بات صاف ہو گئی . ایک مرتبہ پِھر شکریہ!
 
مکرمی عرفانؔ بھائی ۔۔۔ آداب
کل جب آپ کا مراسلہ دیکھا تو کسی کام میں مصروف تھا، اس لیے بروقت جواب نہ دے سکا ۔۔۔ صبح دیکھا تو قبلہ ظہیرؔ بھائی نے نہایت عمدہ مراسلہ اس حوالے سے بھیج رکھا تھا، جس کے بعد زیادہ کچھ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
تسکینِ اوسط کی بابت تو قبلہ و استاذی سرورؔ صاحب سے ان کی اردو انجمن کے دنوں میں ہی یہ معلوم ہو چکا تھا کہ یہ محض زحافات بنانے کا ایک کلیہ ہے ۔۔۔ یہ بحث ایک شاعر کے ’’نَظَرِ کرم‘‘ کو ’’نَظْرِ کرم‘‘ باندھنے سے شروع ہوئی تھی جس کے جواز کے لیے انہوں نے تسکین اوسط کا حوالہ دیا تھا ۔۔۔ ان کے اس دعوے کے رد میں قبلہ نے ایک مفصل مراسلہ لکھا تھا، جسے بعد میں مضمون کی شکل میں اپنی ویب سائٹ پر بھی لگایا۔
میرا اشارہ تو بس لگاتار تین متحرک حروف والے عربی الاصل الفاظ کی اردو کے قاعدے پر جمع بنانے کی طرف تھا کہ بظاہر اس کا کوئی اصول نظر نہیں آتا کہ کہیں درمیانی حرف کو ساکن کردیتے ہیں اور کہیں نہیں ۔۔۔
میری اتنی حیثیت تو نہیں کہ ایسے معاملات میں اپنی رائے پیش کرسکوں لیکن میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اس طرح کے الفاظ کی اردو قاعدے پر جمع بناتے ہوئے درمیانی حرف کو ساکن بولنا اردو کے مزاج سے زیادہ ہم آہنگ معلوم ہوتا ہے۔ تاہم اس غزل میں المیہ کے تلفظ کی غلطی کوئی ’’اجتہادی‘‘ غلطی نہیں ۔۔۔ بلکہ میری درست تلفظ سے ناواقفیت کی بنا پر تھی، جسے میں نے بس اپنی متساہل طبیعت کے طفیل یونہی رہنے دیا :)
راحل صاحب، وضاحت کا شکریہ!
 
Top