محمد وارث
لائبریرین
جلتے جلتے بجھ گئی اک موم بتّی رات کو
مر گئی فاقہ زدہ معصوم بچّی رات کو
آندھیوں سے کیا بچاتی پھول کو کانٹوں کی باڑ
صحن میں بکھری ہوئی تھی پتّی پتّی رات کو
کتنا بوسیدہ دریدہ پیرہن ہے زیبِ تن
وہ جو چرخہ کاتتی رہتی ہے لڑکی رات کو
صحن میں اک شور سا، ہر آنکھ ہے حیرت زدہ
چوڑیاں سب توڑ دیں دلہن نے پہلی رات کو
جب چلی ٹھنڈی ہوا بچّہ ٹھٹھر کر رہ گیا
ماں نے اپنے لال کی تختی جلا دی رات کو
مرغزارِ شاعری میں گم رہا سبطِ علی
سو گئی رہ دیکھتے بیمار بیوی رات کو
(سید سبطِ علی صبا)
مر گئی فاقہ زدہ معصوم بچّی رات کو
آندھیوں سے کیا بچاتی پھول کو کانٹوں کی باڑ
صحن میں بکھری ہوئی تھی پتّی پتّی رات کو
کتنا بوسیدہ دریدہ پیرہن ہے زیبِ تن
وہ جو چرخہ کاتتی رہتی ہے لڑکی رات کو
صحن میں اک شور سا، ہر آنکھ ہے حیرت زدہ
چوڑیاں سب توڑ دیں دلہن نے پہلی رات کو
جب چلی ٹھنڈی ہوا بچّہ ٹھٹھر کر رہ گیا
ماں نے اپنے لال کی تختی جلا دی رات کو
مرغزارِ شاعری میں گم رہا سبطِ علی
سو گئی رہ دیکھتے بیمار بیوی رات کو
(سید سبطِ علی صبا)