منیب احمد فاتح
محفلین
نئی غزل پیش خدمت ہے۔ خوبیوں خامیوں پر روشنی ڈالیں۔ بہت شکریہ!
گہن لگائے نہ رنگِ گل کو جمالِ سیمیں بدن تو کیسے؟
وہ سیم تن جب ہو عکس افگن سمن کو دیکھے چمن تو کیسے؟
نہ وہ سجاوٹ نہ جگمگاہٹ نہ تمتماہٹ نہ جھل جھلاہٹ
ہمارے یاقوت لب کے آگے جو بولے لعلِ یمن تو کیسے؟
پتا وہ میرا ہی پوچھتا ہے گلی میں غیروں کی جا کے لیکن
جواز کیا ہے کہ بدگماں ہوں؟ رکھوں مگر حسنِ ظن تو کیسے؟
سمجھ رہے تھے زمین والے کہ خلد افلاک میں کہیں ہے
بہشت اترتی زمیں پہ کیونکر؟ جہان بنتا عدن تو کیسے؟
وہ درِ نادر جو بدنصیبی سے سنگریزوں میں گر گیا ہو
دکھائے جوہر جتن سے کس کو؟ بتائے خود کو رتن تو کیسے؟
ضمیر جس کا جلا ہوا ہو درون جس کا بجھا ہوا ہو
وہ نغمہ روح سن سکے کیوں؟ سنائے دل کے بھجن تو کیسے؟
انا کی تسکین کے شرارے جو دل ہی دل میں سلگ رہے ہوں
مٹے دلوں سے جلن تو کیونکر؟ بجھے حسد کی اگن تو کیسے؟
خدا پرستی چلن ہے میرا تو بت تراشی بھی فن ہے میرا
بتوں کو پوجوں تو کس بنا پر؟ بنوں اگر بت شکن تو کیسے؟
گزار دی عمر ہاؤ ہو میں سرابِ خواہش کی جستجو میں
حیاتِ تازہ کہاں سے لاؤں؟ جو لوٹے عہدِ کہن تو کیسے؟
شریک ا گرچہ ہوں کارواں میں مگر ٹھکانہ جدا ہے میرا
جو بیچ صحرا رکوں تو کیونکر؟ پہنچ پاؤں وطن تو کیسے؟
زبان سمجھیں نہ ہم زباں بھی مگر سنانی ہے داستاں بھی
جو دل میں رکھوں تو کس طرح سے؟ لبوں پہ لاؤں سخن تو کیسے؟
تھی قلبِ انساں کی استطاعت کہ بن گیا حاملِ امانت
بغیر رائی ہوئے اٹھاتے یہ بوجھ کوہ و دمن تو کیسے؟
نہ میرا سقراط ہم پیالہ نہ میرا منصور ہم نوالہ
نثار ہوں جامِ سم کے کیونکر؟ ہوں نذرِ دارورسن تو کیسے؟
نہ مر گیا ہوں نہ جی اٹھا ہوں نہ جاگتا ہوں نہ سو رہا ہوں
لباسِ ہستی کہاں اتاروں؟ پھروں پہن کر کفن تو کیسے؟
نہ مبتدا ہوں نہ منتہا ہوں نہ اولیں ہوں نہ آخریں ہوں
زمین کب سے ہے اورجانوں رہے گا کب تک گگن تو کیسے؟
حیاتِ رفتہ کی وارداتیں وہ اَن کہی ناشنیدہ باتیں
ہیں منفعل بن کے جی میں یادیں سناؤں گر من و عن تو کیسے؟
سحابِ پیچانِ بے یقینی میں ماہِ تابانِ دل گھرا ہے
نین کی جھیلوں میں جھلملائے اگر لگن کی کرن تو کیسے؟
غزال چشموں کی دھن ہے پیچھے اکیلے پن کا ختن ہے آگے
بڑھے نہ دیوانہ پن تو کیونکر؟ نشہ نہ ہو گر ہرن تو کیسے؟
منیبؔ لاکھوں تمھارے آگے کریں گے دعوائے خوش نوائی
ہزار کی صوت کے مقابل مگر ہوں زاغ و زغن تو کیسے؟
وہ سیم تن جب ہو عکس افگن سمن کو دیکھے چمن تو کیسے؟
نہ وہ سجاوٹ نہ جگمگاہٹ نہ تمتماہٹ نہ جھل جھلاہٹ
ہمارے یاقوت لب کے آگے جو بولے لعلِ یمن تو کیسے؟
پتا وہ میرا ہی پوچھتا ہے گلی میں غیروں کی جا کے لیکن
جواز کیا ہے کہ بدگماں ہوں؟ رکھوں مگر حسنِ ظن تو کیسے؟
سمجھ رہے تھے زمین والے کہ خلد افلاک میں کہیں ہے
بہشت اترتی زمیں پہ کیونکر؟ جہان بنتا عدن تو کیسے؟
وہ درِ نادر جو بدنصیبی سے سنگریزوں میں گر گیا ہو
دکھائے جوہر جتن سے کس کو؟ بتائے خود کو رتن تو کیسے؟
ضمیر جس کا جلا ہوا ہو درون جس کا بجھا ہوا ہو
وہ نغمہ روح سن سکے کیوں؟ سنائے دل کے بھجن تو کیسے؟
انا کی تسکین کے شرارے جو دل ہی دل میں سلگ رہے ہوں
مٹے دلوں سے جلن تو کیونکر؟ بجھے حسد کی اگن تو کیسے؟
خدا پرستی چلن ہے میرا تو بت تراشی بھی فن ہے میرا
بتوں کو پوجوں تو کس بنا پر؟ بنوں اگر بت شکن تو کیسے؟
گزار دی عمر ہاؤ ہو میں سرابِ خواہش کی جستجو میں
حیاتِ تازہ کہاں سے لاؤں؟ جو لوٹے عہدِ کہن تو کیسے؟
شریک ا گرچہ ہوں کارواں میں مگر ٹھکانہ جدا ہے میرا
جو بیچ صحرا رکوں تو کیونکر؟ پہنچ پاؤں وطن تو کیسے؟
زبان سمجھیں نہ ہم زباں بھی مگر سنانی ہے داستاں بھی
جو دل میں رکھوں تو کس طرح سے؟ لبوں پہ لاؤں سخن تو کیسے؟
تھی قلبِ انساں کی استطاعت کہ بن گیا حاملِ امانت
بغیر رائی ہوئے اٹھاتے یہ بوجھ کوہ و دمن تو کیسے؟
نہ میرا سقراط ہم پیالہ نہ میرا منصور ہم نوالہ
نثار ہوں جامِ سم کے کیونکر؟ ہوں نذرِ دارورسن تو کیسے؟
نہ مر گیا ہوں نہ جی اٹھا ہوں نہ جاگتا ہوں نہ سو رہا ہوں
لباسِ ہستی کہاں اتاروں؟ پھروں پہن کر کفن تو کیسے؟
نہ مبتدا ہوں نہ منتہا ہوں نہ اولیں ہوں نہ آخریں ہوں
زمین کب سے ہے اورجانوں رہے گا کب تک گگن تو کیسے؟
حیاتِ رفتہ کی وارداتیں وہ اَن کہی ناشنیدہ باتیں
ہیں منفعل بن کے جی میں یادیں سناؤں گر من و عن تو کیسے؟
سحابِ پیچانِ بے یقینی میں ماہِ تابانِ دل گھرا ہے
نین کی جھیلوں میں جھلملائے اگر لگن کی کرن تو کیسے؟
غزال چشموں کی دھن ہے پیچھے اکیلے پن کا ختن ہے آگے
بڑھے نہ دیوانہ پن تو کیونکر؟ نشہ نہ ہو گر ہرن تو کیسے؟
منیبؔ لاکھوں تمھارے آگے کریں گے دعوائے خوش نوائی
ہزار کی صوت کے مقابل مگر ہوں زاغ و زغن تو کیسے؟