غزل - جہان بنتا عدن تو کیسے؟ - منیب احمد

لیجئے صاحب آپ تو سارا قصہ ہی ختم کردیا ۔ :) بھئی منیب احمد فاتح صاحب آپ نے اپنے اس ایک جملے

"اس لفظ کو میں نے اس کے ہندی تلفظ नयन کے مطابق استعمال کیا ہے۔ یعنی یے پر فتحہ ہے بروزن لگن کرن وغیرہ نہ کہ سکون۔ باقی اردو دانوں پر منحصر ہے ٹھیک جانیں یا غلط"

میں اردو کے جملہ لسانی مسائل کا اتنا مختصر اور آسان سا حل پیش کردیا ہے کہ ہماری تو زبان گنگ ہوگئی ہے ۔:):):)
مذاق برطرف ۔ منیب صاحب آپ نے غزل اردو میں لکھی ہے تو اس میں الفاظ ، گرامر اور اسلوب وغیرہ بھی اردو کے اعتبار ہی سے آئیں گے ۔ آپ کا یہ استدلال کچھ اس طرح کا ہے کہ آپ برطانیہ کی سڑکوں پر گاڑی چلارہے ہوں اور یہ کہیں کہ بھئی میں تو امریکی ٹریفک کے قوانین کے حساب سے چلارہاہوں اب برطانوی پولیس کی مرضی کہ اسے ٹھیک جانے یا غلط ۔ بات یہ ہے کہ اردو میں آکر بہت سارے ہندی، فارسی اور عربی الفاظ کے تلفظ اور معانی بدل گئے ہیں ۔ چنانچہ اب انہیں اُسی طرح برتا جائے گا کہ جس طرح اہلِ زبان انہیں برتتے آئے ہیں ۔ اب ان کے اصل تلفظ اور معانی کا اعتبار نہیں ۔ ہندی کے کئی سہ حرفی الفاظ اردو میں دو طرح سے مستعمل ہیں ۔ یعنی درمیانی حرف ساکن بھی استعمال ہوتا ہے اور متحرک بھی ۔ مثلا جنم ، بھسم، کرم وغیرہ ۔ لیکن نین اردو میں ہمیشہ فاع کے وزن پر استعمال ہوتا ہے ۔ میرے علم میں ایسی کوئی مثال نہیں کہ کسی شاعر نے اردو میں نین کو بروزن فعل باندھا ہو ۔
منیب صاحب براہِ کرم آپ اسے اپنے اوپر ذاتی تنقید نہ سمجھیں لیکن مین اس گفتگو کی وساطت سے ایک عمومی بات اور کرنا چاہوں گا ۔ شاعر اور ادیب کا ایک کام زبان کی حفاظت کرنا بھی ہے ۔ دیکھئے اگر ہمارے اسلاف اگر اپنے شعر و ادب میں دیانت داری کے ساتھ اپنے اپنے زمانوں میں بولی جانے والی زبان کو محفوظ نہ کرتے تو آج یہ زبان اتنی صاف ستھری ہوکر ہم تک کیسے پہنچتی؟! سو اب بحیثیت شاعر و ادیب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم معیاری اور فصیح زبان کی پاسداری کریں ۔ بیشک متبادل لفظ اور پیرایہ ڈھوندنے سے زیادہ آسان کام یہی ہے کہ اپنی مرضی سے کوئی لفظ ٹھونس دیا جائے ۔ لیکن سہل پسندی سے تو کام نہیں چلے گا۔ شاعری تو زبان کی نفیس اور بہترین صورت طلب کرتی ہے۔ اگر کوئی بات ناگوار گزری ہو تومعذرت خواہ ہوں ۔ مقصد دل آزاری نہیں بلکہ باہمی افہام و تفہیم اور ایک بامقصد مکالمہ ہے۔ غزل پر ایک دفعہ پھر داد! اللہ آپ کو خوش رکھے ۔
ناگواری کیسی؟ آپ کا یہ تبصرہ سرآنکھوں پر رکھے جانے لائق ہے۔
آپ نے جو کچھ کہا ہے۔ میں اس سے متفق ہوں۔ اختلاف کی گنجائش نہیں۔ لیکن ایک بات ہے۔ میں ایک ایسے اسلوب اور پیرایہ اظہار کی تلاش میں ہوں کہ جس میں اردو ہندی کے زیادہ سے زیادہ الفاظ کھپائے جا سکیں اور صوتی و معنوی حسن بھی برقرار رہے۔
نیَن کو استعمال کرنا اسی پس منظر میں تھا۔ ایک تجربہ تھا۔ ایسے تجربے اور بھی کرتا رہوں گا۔ آپ جیسے مشاق اور خوش ذوق اساتذہ کی رہنمائی ہی راہِ راست پر رکھ سکتی ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
1۔ تمہارے یاقوت لب سے درست ہو جاتا ہے
2، میرا مطلب تھا کہ موتی اور رتن، یعنی نگینہ، وہ پتھر جو بیش قیمت ہو، دونوں الگ الگ جنس کی چیزیں ہیں۔ بتانا اور بنانا دونوں ہی غلط ہیں۔
3۔ درست۔
4۔نہیں، یوں بھی واضح نہیں ہوتا۔
 
Top