نظر لکھنوی غزل: خرابِ عشق کیا دل لگی کے پردے میں٭ نظرؔ لکھنوی

دادا مرحوم کی ایک غزل احباب کے ذوق کی نذر:

خرابِ عشق کیا دل لگی کے پردے میں
یہ دل عدو ہی بنا دوستی کے پردے میں

سمیٹتے ہیں جو زر بے زری کے پردے میں
ہزار عیش کریں مفلسی کے پردے میں

ہزار غم تھے جو اک سر خوشی کے پردے میں
چھلک پڑے ہیں کچھ آنسو ہنسی کے پردے میں

ہے اس کی یاد مرے دل کی ظلمتوں میں نہاں
خوشا چراغ کہ ہے تیرگی کے پردے میں

جنابِ شیخ کے بارے میں عام شہرت ہے
ہزار عیب کریں بندگی کے پردے میں

تمام اہلِ بصیرت ہیں متفق اس پر
خدا شناسی ہے خود آگہی کے پردے میں

کہاں سے عظمتِ دیرینہ اپنی دکھلائیں
چھپی پڑی ہے وہ چودہ صدی کے پردے میں

لباسِ شرم اتارے تو پھر بشر یہ کہاں
بشر بشر ہے نظرؔ شرم ہی کے پردے میں



محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
تابش بھائی ، اچھی شاعری پڑھنے کا جی چاہ رہا تھا سو زمرہ کھولتے ہی مراد پوری ہوئی ۔ کیا بات ہے !!
خدا شناسی ہے خود آگہی کے پردے میں
کیا بات ہے اس مصرع کی !!! سبحان اللہ سبحان اللہ !!!

نظر صاحب کا جتنا کلام اب تک نظر سے گزرا سنجیدہ فکر اور کمالِ فن کا نمونہ ہے ۔ جب یہ مجموعہ برقی کتاب کی صورت میں آجائے تو مجھے ضرور بھیجئے گا ۔ پیشگی شکریہ ۔
 
تابش بھائی ، اچھی شاعری پڑھنے کا جی چاہ رہا تھا سو زمرہ کھولتے ہی مراد پوری ہوئی ۔ کیا بات ہے !!
خدا شناسی ہے خود آگہی کے پردے میں
کیا بات ہے اس مصرع کی !!! سبحان اللہ سبحان اللہ !!!

نظر صاحب کا جتنا کلام اب تک نظر سے گزرا سنجیدہ فکر اور کمالِ فن کا نمونہ ہے ۔ جب یہ مجموعہ برقی کتاب کی صورت میں آجائے تو مجھے ضرور بھیجئے گا ۔ پیشگی شکریہ ۔
جزاک اللہ ظہیر بھائی.
بس تیاری کے آخری مراحل میں ہے. جلد شئر کروں گا.
 
Top