غزل در زمینِ اقبال

قفس سے آشیاں تک ہے مسرت سے فغاں تک ہے
یہ سوزِ زندگی شاید فقط میرے جہاں تک ہے

وہ گلچیں ہوں کہ بوئے گل سے ہو جاتا ہوں میں بیخود
ہوائے بادہ مجھ کو موسمِ نا مہرباں تک ہے

نہیں کاوش سے پہلے ہمنواؤ بے دلی اچھی
جو مشکل راستے کی ہے رحیلِ کارواں تک ہے

وہ قطرہ ہوں کہ سوزِ عشق سے ہوں بیکراں دریا
مری وسعت خدا کے تخت سے کوئے بتاں تک ہے

نہیں رمزی کوئی اب مصلحت اس در سے اٹھنے میں
کہ ہر اک راستے کی انتہا اس آستاں تک ہے
(رمزی سیکنڈری تخلص ہے)
 
Top