محمد ریحان قریشی
محفلین
دنیا میں ساری عمر ہی رنج و الم ملا
چشمِ کرم ملی نہ ہی دستِ کرم ملا
ہستی ملی فسانہ سراب و خیال سی
وہم و فریب و خواب سا ہم کو عدم ملا
دل کو سکوں کے چند ہی لمحے ہوئے نصیب
زخمِ جگر جہاں میں ہمیں دم بدم ملا
ہم چاہتے جہاں سے تھ ےجب ہونا بے خبر
پینے کو تب ہمیں ہے یہاں جامِِ جم ملا
پاؤں پہ آبلے جو تھے خاروں سے پھوڑتے
کانٹوں کو ڈھونڈتے ہوئے باغِ ارم ملا
ہمدم ہمارا گردشِ دوراں میں گم گیا
ریحان کا سراغ نہ نقشِ قدم ملا
چشمِ کرم ملی نہ ہی دستِ کرم ملا
ہستی ملی فسانہ سراب و خیال سی
وہم و فریب و خواب سا ہم کو عدم ملا
دل کو سکوں کے چند ہی لمحے ہوئے نصیب
زخمِ جگر جہاں میں ہمیں دم بدم ملا
ہم چاہتے جہاں سے تھ ےجب ہونا بے خبر
پینے کو تب ہمیں ہے یہاں جامِِ جم ملا
پاؤں پہ آبلے جو تھے خاروں سے پھوڑتے
کانٹوں کو ڈھونڈتے ہوئے باغِ ارم ملا
ہمدم ہمارا گردشِ دوراں میں گم گیا
ریحان کا سراغ نہ نقشِ قدم ملا