غزل در غزل

دنیا میں ساری عمر ہی رنج و الم ملا
چشمِ کرم ملی نہ ہی دستِ کرم ملا

ہستی ملی فسانہ سراب و خیال سی
وہم و فریب و خواب سا ہم کو عدم ملا

دل کو سکوں کے چند ہی لمحے ہوئے نصیب
زخمِ جگر جہاں میں ہمیں دم بدم ملا

ہم چاہتے جہاں سے تھ ےجب ہونا بے خبر
پینے کو تب ہمیں ہے یہاں جامِِ جم ملا

پاؤں پہ آبلے جو تھے خاروں سے پھوڑتے
کانٹوں کو ڈھونڈتے ہوئے باغِ ارم ملا

ہمدم ہمارا گردشِ دوراں میں گم گیا
ریحان کا سراغ نہ نقشِ قدم ملا
 
جنابِ من،
اچھی کوشش ہے، اصلاح کیلئے اساتذہ کا انتظار ۔
تعارف کی لڑی میں اپنا تعارف بھی کروا دیں
آئی ڈی میں کس چیز کا ماڈل نمبر لکھا ہے؟
 

الف عین

لائبریرین
غزل نہیں بنتی۔ ر میں۔ میں بھی حساب سے پہلے مصرع میں بھی ’فسانہ و‘ ہونا تھا۔ ر دیکھیںبحر و اوزان کا تو مسئلہ نہیں ہے۔

دنیا میں ساری عمر ہی رنج و الم ملا
چشمِ کرم ملی نہ ہی دستِ کرم ملا
۔۔دوسرا مصرع ’نہ ہی‘ کے باعث رواں نہیں لگتا۔ الفاظ بدل کر دیکھیں

ہستی ملی فسانہ سراب و خیال سی
وہم و فریب و خواب سا ہم کو عدم ملا
۔۔الفاظ کا کھیل لگ رہا ہے۔ اس لحاظ سے پہلے مصع میں بھی ’فسانہ و ‘ ہونا تھا۔

دل کو سکوں کے چند ہی لمحے ہوئے نصیب
زخمِ جگر جہاں میں ہمیں دم بدم ملا
۔۔’جہاں میں‘ ہی کیوں؟ شعر ٹھیل ہے لیکن کوئی خاص بات نہیں۔

ہم چاہتے جہاں سے تھ ےجب ہونا بے خبر
پینے کو تب ہمیں ہے یہاں جامِِ جم ملا
۔۔’ہون بے خبر‘ اچھا نہیں لگتا۔ پہلے مصرع کے الفاظ بدل کر دیکھیں۔ جام جم پینے کے لئے کس نے دیا؟

پاؤں پہ آبلے جو تھے خاروں سے پھوڑتے
کانٹوں کو ڈھونڈتے ہوئے باغِ ارم ملا
۔۔پاؤں کی جگہ ’پیروں‘ کہیں، ظاہر ہے واحد پیر میں تو خار نہیں ہوں گے۔ ’پھوڑتے‘ بھی اچھا نہیں لگ رہا، اس میں بھی الفاظ بدلنے کی ضرورت ہے۔ خیال اچھا ہے محض اس شعر کا۔

ہمدم ہمارا گردشِ دوراں میں گم گیا
ریحان کا سراغ نہ نقشِ قدم ملا
ہمدم ریحان ہی تھا یا ریحان کا ہمدم تھا؟
مختصراً یہ کہ محض بحر و اوزان سے ہی غزل نہیں بنتی۔ کچھ اور بھی چاہئے جس کی کمی ہے یہاں۔​
 
Top